تحریک لبیک کی 350 مساجد پنجاب حکومت کی تحویل میں

 

 

 

تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد ہونے کے بعد سے مریم نواز کی حکومت پنجاب ٹی ایل پی کے زیر انتظام چلنے والی 350 سے زائد مساجد اور دینی مدارس اپنی تحویل میں لے کر محکمہ اوقاف پنجاب کے حوالے کر چکی ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ حکومت پنجاب نے جن مساجد کا قبضہ لیا ہے ان میں تحریک لبیک کے مرکزی ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال ہونے والی چوبرجی لاہور میں واقع مسجد رحمت اللعالمین بھی شامل ہے۔

 

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب میں ٹی ایل پی کے زیر انتظام چلنے والی 350 مساجد محکمہ اوقاف کے حوالے کی جا چکی ہیں جبکہ اس سے وابستہ 225 دینی مدارس کا ریکارڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے تاکہ انہیں بھی سرکاری تحویل میں لیا جا سکے۔ حکومت پنجاب نے جن 350 مساجد کو تحویل میں لینے کے بعد محکمہ اوقاف کے حوالے کیا ہے وہاں اب سے سرکاری خطیب خطبہ دے گا۔ یاد رہے کہ محکمہ اوقاف کے تحت چلنے والی مساجد میں امام، خطیب، مؤذن اور خدام محکمے کی جانب سے تعینات کیے جاتے ہیں جبکہ انکی تنخواہ کی ذمہ داری بھی اسی کے سپرد ہوتی ہے۔ اب سے چندے سے حاصل شدہ رقم اور خرچ کی جانے والی رقم کا تمام حساب کتاب بھی محکمہ اوقاف  دیکھے گا۔

 

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے تحریک لبیک کے زیر انتظام چلنے والی تمام مساجد کو اپنی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد کا آغاز صوبہ پنجاب سے کیا گیا، جہاں محکمہ اوقاف پنجاب تیزی سے مساجد اور مدارس کا کنٹرول سنبھال رہا ہے۔ ترجمان محکمہ اوقاف کے مطابق حکومتی تحویل میں لی جانے والی مساجد کا انتظام محکمہ اوقاف کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ اسکے علاوہ حکومت نے ٹی ایل پی سے جڑے تمام بینک اکاؤنٹس منجمد کر کے اس کی فنڈنگ روک دی ہے، 4 ہزار سے زائد ایسے بینک اکاؤنٹس ہولڈرز کے خلاف بھی کارروائی شروع کر دی گئی ہے جو ٹی ایل پی کی فنڈنگ میں ملوث تھے۔

 

یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے تحریک لبیک کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت کالعدم جماعت قرار دے دیا ہے۔ تنظیم پر پابندی کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس کی قیادت نے عمران دور حکومت میں لگائی گئی پابندی ختم کروانے کے لیے جو بھی ضمانتیں دیں ان کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لیا گیا اور ریاست کی رٹ چیلنج کی گئی۔  ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی اور انکے چھوٹے بھائی انس رضوی 13 اکتوبر کو سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے بعد سے روپوش ہیں۔ دونوں بھائیوں کے خلاف ایک پولیس اہلکار کے قتل کا کیس درج ہو چکا ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے ملک بھر میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف تھانوں میں درج 72 کیسز میں دونوں مفرور بھائیوں کے خلاف اقدام قتل اور دہشت گردی کی سنگین دفعات شامل کی گئی ہیں۔

 

پولیس حکام کے مطابق مریدکے دھرنے کے بعد سے اب تک 6 ہزار سے زائد ٹی ایل پی کارکن حراست میں لیے جا چکے ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کریک ڈاؤن ابھی جاری ہے۔ جماعت کی مرکزی مجلس شوری سمیت اہم رہنما اور عہدے دار بھی منظر سے غائب ہیں۔ یاد رہے کہ ’ٹی ایل پی کا قیام 2011 میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ان کے محافظ پولیس اہلکار ممتاز قادری کی رہائی کے مطالبے سے شروع ہوا تھا۔  2020 میں خادم رضوی کے کرونا کے باعث انتقال کے بعد ٹی ایل پی کا سربراہ ان کے بڑے صاحب زادے سعد حسین رضوی کو بنا دیا گیا تھا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں تو تحریک لبیک پر پابندی عائد ہونے کے بعد اٹھا لی گئی تھی لیکن اس مرتبہ ایسا ہوتا مشکل نظر آتا ہے۔

 

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!