نواز شریف سیاسی پناہ لیں گے یا واپس آئیں گے؟


برطانوی ہوم آفس کی جانب سے نواز شریف کے ویزے میں توسیع کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد اپنے وکلا کے مشورے کے باوجود سابق وزیراعظم نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے سے انکار کر دیا ہے۔ نواز شریف کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انکے وکلا نے برطانوی امیگریشن ٹریبونل میں محکمہ داخلہ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی ہے جس کا فیصلہ ہونے میں چند ماہ لگ سکتے ہیں۔ تب تک نواز شریف برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم رہ سکتے ہیں لیکن اس دوران اگر وہ کسی دوسرے ملک کا سفر کرنا چاہیں تو ایسا ممکن نہیں ہے چونکہ ان کے پاکستانی پاسپورٹ کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اپنے وکلا کے اصرار کے باوجود برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے کے لیے تیار نہیں ہیں حالانکہ ایسا کرنے سے انہیں فوری طور پر ریلیف مل سکتی ہے کیونکہ انکا کیس بہت مضبوط یے۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک آپشن یہ بھی ہے کہ نواز شریف اپنے بیٹے حسن نواز کے پاس رہنے کے لئے ڈیپینڈنٹ ریلیٹو ویزا حاصل کر لیں جو کہ برطانوی شہری ہیں۔ یہ ویزہ ایسے والدین کو ملتا ہے جن کی عمر 65 سال سے زائد ہوتی ہے اور نواز شریف اس کیٹگری میں فٹ بیٹھتے ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر برطانوی حکام نواز شریف کے ویزے کی معیاد میں توسیع نہیں کرتے تو وہ آخری آپشن کے طور پر وطن واپس آنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔ تاہم ایسی صورت میں انہیں دوبارہ جیل جانا ہو گا کیونکہ عدالتوں نے ابھی تک نواز شریف کی کی جانب سے سزاؤں کے خلاف دائر کردہ اپیلوں کا فیصلہ نہیں کیا۔
لندن میں نواز شریف کی لیگل ٹیم کے اہم رکن بیرسٹر امجد ملک کے مطابق میاں صاحب کی طرف سے ویزہ توسیع کی درخواست مسترد ہونے کے خلاف اسپیشل امیگریشن ٹربیونل میں اپیل دائر کر دی گئی ہے جس کا فیصلہ آنے میں چھ ماہ سے ایک سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ جب تک یہ فیصلہ نہیں آتا تب تک ہوم آفس کی جانب سے انکے ویزے میں توسیع نہ دینے کے فیصلے پر عمل درآمد رک جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپیشل امیگریشن ٹربیونل کے جج کے فیصلے کے بعد بھی لندن میں اپر ٹریبیونل کے پاس دو اپیلوں کا حق موجود ہے۔ اپر ٹریبیونل کے جج کا عہدہ لندن ہائی کورٹ کے جج کے برابر ہوتا ہے۔ اسپیشل امیگریشن ٹریبیونل کے فیصلے کے بعد کیس کو مزید قانونی نکات پر سنتا ہے۔ اگر یہاں بھی ان کی درخواست رد کر دی جاتی ہے تو پھر نواز شریف لندن ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتے ہیں۔
بیرسٹر امجد ملک نے بتایا کہ نواز شریف کے پاس اپنے بیٹے حسن نواز کے پاس سکونت اختیار کرنے کا حق بھی موجود ہے جو کہ برطانوی شہری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف 65 سال سے زائد عمر کے ہیں اور اپنے بیٹے حسن نواز کے پاس قیام پذیر ہیں۔ برطانوی قانون کے مطابق اگر کوئی شخص 65 سال یا اس سے زائد عمر کا ہو اور طبعی اور مالی ضروریات کی بنیاد پر اپنی اولاد پر انحصار کر رہا ہوں تو اسے برطانیہ میں ڈیپینڈنٹ ریلیٹیو ویزہ جاری کر دیا جاتا ہے جس کے بعد ایسے شخص کو وہاں مستقل قیام کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران اگر حکومت پاکستان نواز شریف کی حوالگی کے لیے برطانوی حکومت سے درخواست کرتی ہے تو نواز شریف سیاسی بنیادوں پر اپنے خلاف بنائے گئے مقدمات پر جنیوا کنونشن 1951 اور انسانی حقوق کے یورپین کنونشن 1950 کے تحت یہ درخواست دے سکتے ہیں کہ ان کے خلاف مقدمات سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ واپس نہیں جانا چاہتے۔
نواز شریف کے قریبی ذرائع کے مطابق اپنی اپیل کا فیصلہ ہونے تک سابق وزیراعظم قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے برطانیہ میں ہی قیام کریں گے۔ یعنی جب تک ان کا علاج نہیں ہو جاتا اور ڈاکٹرز انہیں اجازت نہیں دیتے، وہ وہیں رہیں گے۔ ادھر مسلم لیگ ن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا ہے جس میں نواز شریف نے بتایا ہے کہ انکی دائر کردہ اپیل میں طبی وجوہات اور علاج کی بنا پر برطانیہ میں قیام کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ دوسری جانب وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نواز شریف کے ویزے میں توسیع کی درخواست مسترد ہونے کو ’خوش آئند‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام کا برطانیہ کی حکومت سے مطالبہ تھا کہ وہ ’ایسے لوگوں کو پناہ نہ دیں جو کرپشن میں ملوث ہیں اور اب ہماری بات سنی گئی ہے۔ ادھر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ نواز شریف کا پاسپورٹ 16 فروری 2022 کو ختم ہوچکا ہے اور انھوں نے نئے پاسپورٹ کے حصول کے لیے درخواست نہیں دی ہے۔شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف پاکستان لوٹنا چاہیں تو انھیں 24 گھنٹوں میں پاسپورٹ مل سکتا ہے، صرف سفارت خانہ ان کو پاکستان آنے کے لیے این او سی جاری کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ 20219 میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو علاج کے غرض سے چار ہفتے کے لیے برطانیہ جانے کی اجازت دی گئی تھی جس کے بعد وہ نومبر 2019 میں برطانیہ روانہ ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی حکومت کا موقف ہے کہ انہیں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاج کی غرض سے ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
نواز شریف نیب کی تحویل میں چوہدری شوگر ملز کیس کی تفتیش کا سامنا کررہے تھے جب انھیں صحت کی تشویش ناک صورت حال کے باعث لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں یہ بات سامنے آئی کہ ان کے خون میں پلیٹلیٹس مسلسل کم ہورہے ہیں۔
اس موقعے پر سابق وزیر اعظم کی صحت کے جائزے کے لیے ڈاکٹر محمود ایاز کی سربراہی میں ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا۔ میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کے مرض کی ابتدائی تشخیص کی تھی اور بتایا تھا کہ انہیں خلیات بنانے کے نظام خراب ہونے کا مرض لاحق ہے۔ تاہم جب نواز شریف علاج مکمل کروائے بغیر وطن واپس آنے سے انکاری ہوگئے تو حکومت پاکستان نے برطانوی حکومت سے ان کی تحویل کا مطالبہ کیا تھا جسے مسترد کردیا گیا تھا۔

Back to top button