کیا افغان طالبان TTPکو روک پائیں گے؟

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان کے سرحد پار بیٹھے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے اور اگر کابل کے نئے حکمران یہ مطالبہ پورا نہ کر پائے تو دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی بڑھنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
افغان طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد پاکستان کی طرف سے کئی بار یہ اشارے کیے گئے ہیں کہ افغان طالبان پاکستانی طالبان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں۔
ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ افغان طالبان نے ایک کمیشن بنا دیا ہے، جو ٹی ٹی پی کے حوالے سے پاکستان کی شکایات کی تحقیق و تفتیش کرے گا۔ لیکن پاکستان میں کئی حلقے یہ بحث بھی کر رہے ہیں کہ آیا افغان طالبان ٹی ٹی پی، جو ان کے نظریاتی بھائی ہیں، کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات کریں گے۔ فی الحال تو ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا حالانکہ شیخ رشید احمد نے یہ بیان داغ دیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان مستقبل میں سرحد پار سے دہشت گرد کارروائیاں نہیں کرے گی۔ اس سے پہلے ایسی اطلاعات بھی تھیں کہ پاکستان نے باقاعدہ طور پر افغان طالبان سے رابطہ کر کے پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گرد کارروائیاں روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بنیادی طور پر پاکستانی سکیورٹی حکام کو خدشہ ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد 780 سے زائد رہائی پانے والے تحریک طالبان کے جنگجو پاکستان کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے خود کو عسکری حلقوں کا ترجمان ظاہر کرنے والے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے کہا تھا۔ افغان طالبان کا کہنا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی سے کہیں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرے، اپنے آپ کو غیر مسلح کرے اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرے۔‘‘ امجد شیعب کے بقول اب ایک تخن رکنی کمیشن بھی اس حوالے سے بنایا گیا ہے جس کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے تھے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ مذاکرات ہوئے ہیں یا نہیں۔‘‘
دوسری جانب سکیورٹی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغان طالبان کبھی بھی ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے کیونکہ وہ ان کے نظریاتی بھائی ہیں اور پاکستانی حکام صرف اپنے دل کو بہلا رہے ہیں۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار مختار باچا کہتے ہیں کہ ماضی میں ٹی ٹی پی کے امیر افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کرتے رہے ہیں اور ابھی نور ولی محسود نے بھی افغان طالبان کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کی ہے۔ مختار باچا کے بقول یہ ممکن ہے کہ کچھ چھوٹے لیول کے جنگجو پاکستان کے حوالے کیے جائیں لیکن ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی فیصلہ کن کارروائی بالکل ناممکن ہے، نخا کہنا ہے کہ اس کے لئے ہمیں جہادیوں کی نظریاتی سوچ کا بھی جائزہ لینا ہوگا، جس کے مطابق ٹی ٹی پی کے جنگجو اس وقت مہاجرین ہیں اور افغان طالبان اپنے آپ کو انصار کہتے ہیں، افغان طالبان نے ماضی میں اسی بنیاد پر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا تھا۔ ان کے خیال میں ٹی ٹی پی نے ان کے ساتھ امریکہ کے خلاف جنگ کر کے امارت اسلامی پر احسان کیا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی عطااللہ خان کی رائے میں پاکستان نے ہمیشہ افغان طالبان کی حمایت کی ہے اور اگر وہ خلقص دل سے چاہیں تو وہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خلاف بالکل ایکشن لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے نوے کی دہائی میں بھی طالبان کی حمایت کی تھی اور اس وقت بھی وہ خطے میں ان کا سب سے بڑا حامی ہے۔ افغان طالبان اس وقت مضبوط ہیں اور ٹی ٹی پی والے کمزور ہیں اور ان کو اس بات کا پابند کر سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف کوئی مسلح کارروائی نہ کریں۔
عطاء اللہ خان کے بقول، "ماضی میں پاکستانی طالبان نے ریاست کے خلاف لڑائی کی، جس سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا لہازا یقینا پاکستان کا یہی مطالبہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے طالبان کو غیر مسلح کیا جائے اور کسی بھی طرح پاکستان میں کوئی مسلح جد وجہد نہ ہو۔ انکے مطابق افغان طالبان ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو اس بات پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف مسلح جدوجہد نہ کریں۔

Back to top button