شاہزیب خانزادہ کے ہاتھوں عمرانڈو ججز کی بھرپور دھلائی

سینئر صحافی شاہزیب خانزادہ نے چار چیف جسٹس صاحبان جسٹس ثاقب نثار، جسٹس گلزار احمد، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس عمر عطا بندیال کا پوسٹ مارٹم کر دیا۔ چاروں چیف جسٹس صاحبان کو ملک کے موجودہ حالات کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے شاہزیب خانزادہ کا کہنا ہے کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے سپریم کورٹ کا وقار متاثر ہونے کے علاوہ عدالت عظمی پر عوام کا اعتماد بری طرح مجروح ہوچکا ہے اس پر آئین کے تحفظ کے نام پر آئین کی دھجیاں اڑانے کا الزام لگ چکا ہے، تمام تر معاملات کی ذمہ داری کسی اور پر نہیں بلکہ خود چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر عائد ہوتی ہے.جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے عدلیہ کو بدنام کرنے اور قوم کے درمیان عدم اعتماد کی فضاء قائم کرنے کی کوشش کی گئی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ہر وہ کام کیا جس سے عدلیہ کی ساکھ متاثر ہو۔
جیو ٹی وی پر اپنے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے سینئر صحافی کا مزید کہنا تھا کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے بعد بننے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے کھڑے ہوگئے .جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مکمل طور پر سائڈ لائن کردیئے گئے، نہ صرف انہیں اہم بنچز کا حصہ نہیں بنایا گیا بلکہ انکے بعد کے سینئر ترین جج جسٹس سردار طارق مسعود کیساتھ بھی یہی رویہ اپنایا گیا۔ شاہزیب خانزادہ کے مطابق پاکستان کو اس برے حال تک پہنچانے میں جہاں اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کا کردار ہے وہاں عدلیہ کا کردار بھی بہت زیادہ منفی رہاہے، گزشتہ چند برسوں پر نظر ڈالیں تو چار چیف جسٹسز نے اس سب میں اہم کردار اد اکیا ہے.
شاہزیب خانزادہ کے بقول سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا دور آئینی و قانونی فیصلوں کے بجائے ریمارکس، چھاپے اور دوروں تک محدود رہا، ہزاروں کیسوں کا بیک لاگ ختم کرنے کے بجائے ڈیم بنانے ،تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ فنڈ ریزنگ کرنے کا شوق ، سیاسی معاملات میں مداخلت کر کے الیکشن اور سیاسی مینجمنٹ کرنا ان کا ایجنڈا رہا.
شاہزیب خانزادہ کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کا دور آئینی و عدالتی بحرانوں سے نمٹنے کے بجائے کراچی کے مسائل کے سطحی حل اور نسلہ ٹاور گرانے تک محدود رہا،جسٹس آصف سعید کھوسہ کا دور جو نسبتاً بنچز بنانے کا معاملہ میں بہتر تھا لیکن بطور جج اپنے پورے دور میں اس تنازع کی زد میں رہے کہ انہوں نے ایک منتخب وزیراعظم کو گاڈ فادر کہا اور پھر بغیر ٹرائل کے انہیں نااہل کردیا، ان پر بعد میں اسی سابق وزیراعظم سے اس کے جیل میں ہوتے ہوئے اس سے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے مدد مانگنے کا الزام بھی لگا، اب چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی مدت ملازمت ختم ہونے جارہی ہے، وہ اپنا عہدہ چھوڑ کر سپریم کورٹ سے رخصت ہورہے ہیں لیکن وہ جو میراث چھوڑ کر جارہے ہیں اسے سپریم کورٹ کے متنازع ترین کردار سے متعلق تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا.
شاہزیب خانزادہ کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال جس حالت میں سپریم کورٹ چھوڑ کر جارہے ہیں وہ جمہوری حکومتوں کے دوران تاریخ کی سب سے کمزور اور متنازع سپریم کورٹ ہے، ایک ایسی سپریم کورٹ جس کے چیف جسٹس کی ساس کی جب آڈیو لیک ہوئی تو وہ چیف جسٹس خود آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف کیس کی سماعت کرتے رہے، مفادات کے ٹکراؤ کے باوجود چیف جسٹس نے کمیشن کی کارروائی کو معطل کیا اور اپنے اوپر اعتراض کا تحریری فیصلہ بھی خود ہی جاری کیا ایک ایسی سپریم کورٹ جس کے چیف جسٹس نے خود ایک بنچ بنا کر سوموٹو کے اختیارات اپنے آپ تک محدود کردیئے اور جب ان اختیارات کو محدود کرنے کیلئے قانون بنا تو اس معاملہ میں خود ایک بنچ تشکیل دیدیا اور اپنی ہی سربراہی میں اس قانون کو معطل کردیا، ایک ایسی سپریم کورٹ جو اپنے اندر ہی تقسیم ہے، جس کے چیف جسٹس پر اپنے ہی ججوں نے جانبداری کا الزام لگایا، ون مین شو کے تحت سپریم کورٹ کو چلانے کا الزام لگایا، ایک پارٹی کا ایجنڈا آگے بڑھانے کا الزام لگایا، آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کا الزام لگایا اور پارلیمانی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا،سیاسی کیسوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے سپریم کورٹ میں زیرالتواء کیسوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے صرف اگست میں زیرالتواء کیسوں میں 1570نئے کیسوں کا اضافہ ہوا ہے، مجموعی طور پر زیرالتواء کیسوں کی تعداد 54ہزار 965سے بڑھ کر 56ہزار 544تک پہنچ گئی ہے. جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں1947ء کے بعد سپریم کورٹ نے سب سے زیادہ زیرالتواء کیسز کا ریکارڈ قائم کیا ۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عہدہ سنبھالا تو اس وقت زیرالتواء کیسوں کی تعداد 53ہزار 964تھی۔
31دسمبر 2016ء سے جون 2023ء تک گزشتہ سات سال میں 4چیف جسٹسز کے ادوار میں 1957 رپورٹڈ کیسوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتے ہیں کی گزشتہ 7 سال کے اہم ترین 134سیاسی کیسوں میں جسٹس اعجاز الاحسن سب سے زیادہ یعنی 63کیسوں کا حصہ رہے، جسٹس عمر عطا بندیال 52 ، جسٹس منیب اختر 22 ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 11، جسٹس یحییٰ آفریدی 10کیسز، جسٹس منصور علی شاہ 9کیسز اور جسٹس سردار طارق مسعود صرف 7کیسوں کا حصہ رہے جبکہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہنے والے 1823 غیر سیاسی اہم کیسز کا فیصلہ کرنے میں جسٹس اعجاز الاحسن سب سے زیادہ 372کیسوں کا حصہ رہے، جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال 315، جسٹس منصور علی شاہ 302، جسٹس طارق مسعود 241
ایشیا کپ،سری لنکا کیخلاف میچ کیلئے پاکستان ٹیم میں 5 تبدیلیاں
اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 199کیسوں کا حصہ رہے ہیں۔