نواز شریف نے مریم کی خاطر وزارت عظمیٰ قربان کر دی؟

سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار حامد میر نے کہا ھے کہ الیکشن سے قبل ہی باخبر حلقوں اور مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنماؤں کو علم تھا کہ انتخابات کے بعد نواز شریف کی بجائے شہباز شریف کو ہی وزیراعظم بنایا جائے گا ۔ مریم نواز کا وزیر اعلیٰ پنجاب بننا اسی صورت میں ممکن تھا کہ ان کے والد نواز شریف وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر نہ ھوں۔ اسی لئے والد کی بجائے مریم نواز کے چچا شہباز شریف وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔ اپنے سیاسی تجزیئے میں حامد میر کا کہنا تھا کہ الیکشن سے قبل نواز شریف کی باڈی لینگویج بھی بتا رھی تھی کہ وہ اپنی صاحبزادی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر پیش کر رھے ہیں اسی لئے انتخابی جلسوں میں مریم کا نواز شریف کے بعد خطاب کروایا جاتا تھا۔ مسلم لیگ نون کی قیادت اور اہم رہنماؤں کو بھی اندازہ تھا کہ الیکشن میں ان کی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل ھونا بہت مشکل ھے سادہ اکثریت حاصل ھوتی تو نواز شریف وزیراعظم بن سکتے تھے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں بھی یہی رائے تھی کہ وزارت عظمیٰ کے لئے شہباز شریف کی حمایت تو کی جاسکتی ھے مگر نواز شریف کو سپورٹ کرنا انکے لئے معیوب ھوتا کیوں کہ بلاول بھٹو کی انتخابی مہم کی بنیاد ہی نواز شریف کی مخالفت رہی تھی ۔ انڈیپینڈنٹ اردو میں شائع ھوئی اپنی تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن آٹھ فروری 2024 کو ہمیں پاکستان کے بڑے شہروں میں عمران خان کے حق میں ایک عوامی لہر نظر آئی۔ کراچی میں دوپہر کے وقت لیاری کے مختلف پولنگ سٹیشنوں کے باہر کئی نوجوانوں نے بتایا کہ وہ جانتے ہیں کہ لیاری سے تحریکِ انصاف کا امیدوار نہیں جیتے گا لیکن وہ تحریکِ انصاف کے امیدوار کو ووٹ ڈال کر آئے ہیں۔ کیوں کہ عمران خان بہادری سے جیل کاٹ رہا ہے لیکن نواز شریف جب بھی جیل جاتا ہے تو ڈیل کر کے پاکستان سے بھاگ جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ پاکستان بھر میں تحریکِ انصاف کے امیدوار مختلف انتخابی نشانوں پر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے لیکن اس کے باوجود یہ آزاد امیدوار شیر اور تیر پر سبقت لے گئے۔ مسلم لیگ (ن) اپنی غلطیوں اور خامیوں کا جائزہ لینے کی بجائے میڈیا کے ساتھ محاذ آرائی پر اتر آئی ہے اور یہ بھول رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس محاذ آرائی کا نئی حکومت کو بہت نقصان ہوگا۔
حامد میر کے مطابق مسلم لیگ (ن) یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اپریل 2022 سے اگست 2023 تک شہباز شریف کے ڈیڑھ سالہ دور ِ اقتدار میں پاکستانی میڈیا غیر اعلانیہ سینسر شپ کا شکار تھا۔ ٹی وی چینلز پر عمران خان کی تصاویر اور بیانات بند کر دیے گئے جس کا عمران خان کو بہت فائدہ ہوا۔ اگست 2023 میں جو نگران حکومت قائم ہوئی اس کا وزیرِاعظم ایک ایسا شخص بنایا گیا جو زندگی میں ہر انتخاب ہار گیا تھا لیکن صحافیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کر کے خود کو فاتح سمجھتا تھا۔

جب نواز شریف وطن واپس آئے تو ائرپورٹ پر پولیس افسران انھیں سلیوٹ مار رہے تھے۔ عام تاثر یہ تھا کہ نواز شریف نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ چھوڑ کر خلائی مخلوق کی غلامی اختیار کر لی ہے۔ مسلم لیگ نون کو سب سے زیادہ نقصان استحکامِ پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اتحاد سے ہوا۔ ایک طرف تحریک انصاف والوں کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا جا رہا تھا دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے گلے میں لوٹوں کا ہار ڈال دیا گیا ۔ طاقتور لوگوں نے ایک تیر سے کئی شکار کر لیے۔

حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان کو جیل میں بند کر دیا اور نواز شریف کو لوٹوں کے جھرمٹ میں غائب کر دیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی انتخابی مہم بہت تاخیر سے شروع کی اور نواز شریف نے اپنی بدن بولی سے یہ تاثر دیا کہ انھیں وزیرِاعظم بننے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی بات تو پہلے ہو چکی ہے۔ بہتر ہوتا کہ 9 فروری کو نواز شریف وکٹری سپیچ کرنے کی بجائے اس جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دیتے جس کے پاس اکثریت ہے لیکن انھوں نے اپنی اکثریت کا دعوٰی کر دیا۔ اس وکٹری سپیچ کا مسلم لیگ (ن) کو مزید نقصان ہوا اور ایک بنگلہ دیشی صحافی نے یہ لکھا کہ اب پاکستانیوں کو سمجھ جانا چاہیے کہ 1971 میں بنگالیوں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟مگر حقیقت یہ ہے کہ 1971 میں اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل نہ کرنا بہت بڑی غلطی نہیں بلکہ ظلم تھا لیکن عوامی لیگ اور تحریکِ انصاف میں بہت فرق ہے۔ عوامی لیگ صرف پاکستان کے ایک صوبے میں مقبول تھی جو مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔ تحریکِ انصاف موجودہ پاکستان کے تمام صوبوں میں مقبول ہے۔ ہم 2024 کے انتخابات میں 1970 کے انتخابات کا ٹرینڈ تو تلاش کر سکتے ہیں لیکن عمران خان کو آج کا شیخ مجیب الرحمن قرار نہیں دے سکتے۔ شیخ مجیب الرحمن کسی بھی آرمی چیف کے کندھوں پر بیٹھ کر وزیرِاعظم نہیں بنا تھا جبکہ عمران خان 2018 میں ایک آرمی چیف کے کندھوں پر بیٹھ کر وزیرِاعظم بن گئے تھے۔
شیخ مجیب الرحمان نے مارچ 1971 میں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں خان عبدالولی خان اور غوث بخش بزنجو کے علاوہ مسلم لیگی رہنما ممتاز دولتانہ کے ساتھ ڈائیلاگ کیا تھا۔ شیخ مجیب نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی ڈائیلاگ کیا لیکن عمران خان فی الحال کسی بڑی جماعت کے ساتھ ڈائیلاگ پر راضی نہیں۔ اگر وہ انتخابات سے پہلے چند چھوٹی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنا لیتے تو انتخابی نشان کا مسئلہ حل کر سکتے تھے لیکن انھوں نے سولو فلائٹ کو ترجیح دی۔

حامد میر کہتے ہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود اس سولو فلائٹ کے ذریعے عمران نے اپنے پرانے حریف نواز شریف کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے نئی حکومت میں شامل ہونے سے معذرت کر لی ہے لیکن حکومت کی حمایت کرے گی تاکہ سیاسی عدم استحکام پیدا نہ ہو۔ اب نواز شریف کی بجائے شہباز شریف وزیرِاعظم بنتے ہیں تو انھیں قومی اسمبلی میں ایک بڑی اپوزیشن کا سامنا ہو گا۔ اس اپوزیشن کو ’ساتھ ‘ لے کر چلنا ہو گا بصورتِ دیگر انتقام کا راستہ پاکستان کو کسی بڑے سانحے سے دوچار کر سکتا ہے جس کی ذمہ داری عمران خان پر نہیں بلکہ شہباز شریف پر عائد ہو گی۔

Back to top button