مسلم لیگ نون میں سے ” ن ” ہی کیوں نکال باہر کیا گیا؟

سینئر سیاسی تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ھے کہ اب اعلان ہو چکا ہے کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں بنیں گے۔ کیونکہ ایک طاقتور وزیراعظم کسی کو قبول نہیں۔ اب نواز شریف کا عہد ختم ہو گیا۔ اب اس طرز کی سیاست کا دور گزر گیا۔’نون‘ میں سے ’شین‘ نکالنے والے تجزیہ کار جانے کیا سوچ رہے تھے کہ اچانک ظالموں نے ن لیگ سے ’ن‘ ہی کو نکال باہر کیا۔ اپنے ایک کالم میں عمار مسعود لکھتے ہیں کہ نہ جانے کیوں لگتا ہے کہ ہم سب نے، اس سماج نے، اس ملک نے نواز شریف سے وفا نہیں کی۔ وہ بڑا آدمی ہے لیکن اس سماج کی توقعات بڑی نہیں ہیں۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے ایک سیاسی جماعت کا لیڈر وزیراعظم منتخب ہو جائے اور اسی سیاسی جماعت کی لیڈر سب سے بڑے صوبے کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب ہونے جا رہی ہو اور اس سیاسی جماعت کے کارکن کامرانی کا جشن منانے کے بجائے دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہوں۔ ن لیگ کے کارکن، ہمدرد، واقفانِ حال اس جماعت کو ن لیگ کے نام سے جانتے مانتے اور پہچانتے تھے۔

سب کو انتخابات سے یہی توقع تھی کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے۔ جماعت کی طرف سے بھی یہی نعرہ لگایا گیا۔ اخبارات میں بھی یہی اشتہار شائع کیا گیا۔ حتیٰ کہ شیروانی کے شوقین شہباز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے اعلان سے پہلے آخری پریس کانفرنس میں بھی نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کا عزم دہرایا۔ لیکن بہت سے دھڑکتے دل جانتے تھے کہ اس ملک میں اتنا طاقتور وزیراعظم کسی کو قبول نہیں ہونا، اس ملک میں اتنا فہیم سیاستدان کسی کو درکار نہیں، یہاں کی سیاست میں گنڈا پور اور شہباز شریف درکار ہیں۔ یہاں نواز شریف جیسے لوگوں کا اب کوئی کام نہیں رہا۔ اب ان کا وقت بِیت گیا۔ مزاحمت، رواداری اور ذہانت کی سیاست کا ایک عہد گزر گیا۔ اب ہمارے پاس ایک تابناک ماضی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

عمار مسعود کے مطابق نواز شریف چاہتے تو عیش و آرام کی زندگی بہت مزے سے گزار سکتے تھے۔ وہ بہت پہلے زمانے کے ملک ریاض بن کر بریگیڈیئروں اور جرنیلوں سے چائے بنوا سکتے تھے، مگر انہوں نے زندگی کا دشوار راستہ چُنا۔ جب سے پنجاب کے وزیر خزانہ بنے کوئی کاروبار نہیں کیا۔ تب ہی تو مشرف سے لیکر باجوہ تک، عمران خان سے لیکر شہزاد اکبر تک دہائیوں کرپشن کے ثبوت ڈھونٹے رہے مگر سوائے ایک ’اقامے‘ کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینا آخر جرم قرار پایا۔ خارزارِ سیاست میں نواز شریف نے بہت مشکلات جھیلیں، کبھی طیارہ سازش کیس میں گرفتار رہے، کبھی کسی جرنل نے کنپٹی پر پستول رکھی، کبھی غلیظ میڈیا ٹرائل ہوا، ایام اسیری میں رفیق حیات دارِ فانی سے کوچ کرگئیں، والدہ کے انتقال کی روح فرسا خبر زندان خانے میں ملی، کبھی باپ کے جنازے کو کاندھا دینے کی اجازت نہیں ملی، کبھی جلاوطنی مقدر ٹھہری، کبھی بیٹی کو باپ کے سامنے گرفتار کر لیا گیا، کبھی جیل میں اذیتیں دی گئیں، کبھی کرپشن کے الزامات لگائے گئے، کبھی ساتھیوں کو ٹکٹی پر چڑھا دیا گیا، مگر نواز شریف نے آئین کی حرمت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے جب یہ کہا ’مجھے کیوں نکالا؟‘ یا جب ’ووٹ کو عزت دو‘ کو نعرہ بلند کیا، تو ہر بار مطالبہ ذات نہیں پاکستان میں پارلیمان کی بالادستی تھی۔
آج جب اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے نبرد آزما ہے، جو جنرل باجوہ کے زمانے کے راز کھول کھول کر چوک میں فوج کو رسوا کر رہے ہیں، تو یاد رکھیں نواز شریف نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ سوچیں کارگل کے حوالے سے، ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے، بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے، جرنیلوں کی حرص کے حوالے سے، کتنے راز ان کے سینے میں دفن ہوں گے مگر ان میں سے ایک بھی راز آج تک ان کی زبان پر نہیں آیا۔ اس لیے کہ انہیں اپنی شہرت سے زیادہ اس وطن کی عزت پیاری رہی ہے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ یہ وقت گزر جائے گا مگر آنے والے زمانے پاکستان کو کسی جرنیل کے نام سے نہیں بلکہ ایک ایسے سیاستدان کے نام جانیں گے جو نرم خو تھا، جو بستر مرگ پر پڑی اہلیہ کو آخری لمحے میں کہ رہا تھا ’آنکھیں کھولو‘۔ جس شخص نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے زمین اور پچاس کروڑ روپے عطیہ دیا، وہ شخص جو بدترین سیاسی دشمنی کے باوجود سب سے پہلے بے نظیر شہید کی میت کے پاس پہنچا۔ وہ مشرف جس نے نواز شریف کو بدترین انتقام کا نشانہ بنایا اسی کو بیماری میں وطن واپسی کی کھلے دل سے اجازت دی، اسی مشرف کے انتقال پر سب سے پہلے تعزیت کی۔ اپنے آپ کو گالیاں دینے والے عمران خان کی عیادت کرنے سب سے پہلے پہنچا۔ یہ شخص نہ جرنیلوں کی بندوقوں سے ڈرا ، نہ جیل کی سلاخوں سے، نہ جلاوطنی کی تکلیف سے، نہ اہلیہ کی موت کے غم سے۔ اس کو صرف آئین کی حرمت عزیز رہی، اور وہ آخری وقت تک ووٹ کی عزت کے مطالبے پر سختی سے ڈٹا رہا۔

Back to top button