’’بھارت میں الیکشن کے دوران ہندوتوا فلموں کی دھوم‘‘

بھارت میں الیکشن سر پر ہونے کے باعث جہاں سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں وہیں الیکشن کے حوالے سے ’’ہندوتوا فلمیں‘‘ بھی خوب دھوم مچا رہی ہیں، ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ فلمیں ملک میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہیں؟2019 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل دو فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن پر کافی بحث ہوئی، پارلیمانی انتخابات سے تین ماہ قبل وجے گٹے کی ہدایت کاری میں بنی فلم ’’دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘‘ ریلیز ہوئی، یہ فلم سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے میڈیا ایڈوائزر سنجے بارو کی تصنیف کردہ کتاب پر مبنی ہے، اس فلم میں وزیراعظم منموہن سنگھ کی تصویر کشی کی گئی کہ وہ کس طرح کانگریس قیادت کے قبضے میں ہیں۔جوں جوں پارلیمانی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالنے کے دن قریب آنے لگے فلم ‘تاشقند فائلز – ہو کلڈ شاستری؟’ ریلیز ہوئی۔ وویک اگنی ہوتری کی ہدایت میں بننے والی اس فلم نے انڈیا کے سابق وزیراعظم لال بہادر شاستری کی موت کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا لیکن فلم کو بہت خراب ریویوز ملے۔’’دی کیرالہ سٹوری‘‘ ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جو نرس بننا چاہتی ہے، اسلام قبول کر کے آئی ایس آئی ایس میں شامل ہوتی ہے اور افغان جیل میں قید ہے۔ کیرالہ میں اس فلم کی شدید مخالفت ہوئی تھی۔ فلم کے عملے کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے عدالت میں جاری درخواست میں دیئے گئے اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔ یہ فلم گزشتہ سال مئی میں ریلیز ہوئی تھی اور اس کی ہدایت کاری سودیپتو سین نے کی تھی، فلم کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے بہت زیادہ پروموٹ کیا تھا۔دوسری فلم ’’دی کشمیر فائلز‘‘ تھی جس میں 1990 کی دہائی میں کشمیر سے ہندو پنڈتوں کے اخراج کو دکھایا گیا ہے۔ وویک اگنی ہوتری نے اس فلم کی ہدایت کاری کی۔ بی جے پی نے اس فلم کی بھی کافی حمایت کی۔ پارٹی نے دعویٰ کیا کہ فلم نے کشمیری پنڈتوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کو بے نقاب کیا ہے۔ بی جے پی نے اس فلم کو حکمران ریاستوں میں ٹیکس فری قرار دیا تھا۔ یہ فلم 11 مارچ سنہ 2022 کو ریلیز ہوئی اور زبردست کامیابی حاصل کی۔تیسری فلم ’دی ویکسین وار‘ تھی۔ اسے بھی وویک اگنی ہوتری نے ہدایت دی تھی۔ یہ انڈیا میں کووڈ وبا کیلئے ویکسین تلاش کرنے کی کہانی ہے اگرچہ ایک فلم کے طور پر یہ دیکھنے کے قابل ہے، ناقدین نے فلم پر حکومتی پروپیگنڈہ فلم ہونے کا سخت الزام لگایا ہے۔ اسے گزشتہ سال 23 ستمبر کو ریلیز کیا گیا تھا۔ان تینوں فلموں میں ’’دی کیرالہ سٹوری‘‘ اور ’’دی کشمیر فائلز‘‘ نے بہت کامیابی حاصل کی۔’جے این یو: جہانگیر نیشنل یونیورسٹی’ نام کی فلم دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو دوسرے روپ میں پیش کیا گيا ہے۔ ونے شرما کی ہدایت کاری والی اس فلم میں اروشی روتلا، سدھارتھ بھوٹکے، وجے راس اور دیگر نے اداکاری کی ہے۔ آرٹیکل 370 نامی فلم کو آدتیہ سوہاس جمبالے نے ڈائریکٹ کیا ہے۔ اس میں یامی گوتم، پریمانی اور ارون گوول نے اداکاری کی۔ ’میں اٹل ہوں‘ روی جادو کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم انڈیا کے سابق وزیر اعظم اور بی جے پی رہنما اٹل بہاری واجپائی کی زندگی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ پنکج ترپاٹھی نے واجپائی کا کردار ادا کیا ہے۔ فلم ‘رضاکار’ کی ہدایت یتا ستیہ نارائن نے دی ہے۔ اس فلم میں بابی سمہا، تیج سبرو اور ویدیکا نے اداکاری کی ہے۔ یہ فلم ہندوستان کی آزادی کے وقت حیدرآباد نظام کی ریاست میں پیش آنے والے واقعات پر مبنی ہے۔فلمیں آتی رہتی ہیں اور بھلا دی جاتی ہیں لیکن 5 اپریل کو انڈیا کے سرکاری ٹیلی ویژن دوردرشن پر متنازع فلم ‘دی کیرالہ سٹوری’ کو پیش کیا گيا، جب یہ اعلان کیا گیا تو کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے اس کی سخت مخالفت کی لیکن کشمیر فائلز اور کیرالہ اسٹوری کے علاوہ کوئی بھی ہندوتوا فلمیں ملک بھر کوئی زیادہ سنسنی پیدا نہیں کر سکیں، فلمی نقاد رامکی کہتے ہیں کہ اس کے باوجود ان فلموں کا انتخابات پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا، فلمی تجزیہ کار اور ہدایت کار امشان کمار بھی اسی طرح کے خیالات ظاہر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘جب پارشکتی سامنے آئی تو پورا انڈیا دنگ رہ گیا۔

Back to top button