قیدی نمبر 804نے جنرل عاصم کا یحییٰ خان سے غلط موازنہ کیوں کیا ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان اندرونی وطن دشمنوں کی سازشوں کی وجہ سے بدترین بحران میں گھرا ہوا یے لہذا ملک کو بچانے کے لیے غداروں کا تعین اور انکا احتساب ہمارے فیصلہ سازون کی پہلی ترجیح ہونی چاہیئے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں عمران خان کے کزن اور ان کے سابقہ بہنوئی حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی ائی کی آفیشل ٹویٹ ،’’ غدار کون؟‘‘ آج اور 1971ءکے مشرقی پاکستان کے حالات کا تقابلی جائزہ اور شیخ مجیب الرحمن غدار تھا یا جنرل یحییٰ، کی بحث، وطن دشمنی کا ایک بڑا ثبوت ہے۔ اسکا پہلا مقصد غداری کے کٹہرے میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو کھڑا کرنا ہے۔ "غدار کون‘‘کی ٹویٹ نے سوشل میڈیا پر کہرام برپا کر رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے پڑھنے اور سننے والے بخوبی واقف ہیں کہ مخں ہمیشہ سے ملکی سیاسی بحران کا کُلی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو گردانتا ہوں ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں، دشمنوں کے نرغے میں گھرے وطن کی واحد محافظ و پاسبان ہماری فوج ہے ۔ دوسری حقیقت! جرنیلوں ، افسروں ، جوانوں میں جہاں بھارت سے نفرت اور دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہے وہاں بوجہ سیاسی در اندازی ، 75 سال سے عسکری قیادت امریکی مفادات پرملکی مفادات قربان کررکھنے میں ملوث ہے ۔ میرے مطانق امریکی خوشنودی کے بغیر پاکستان میں سیاسی من مانی ممکن نہیں رہتی ۔

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ عمران خان کی جانب سے اپنے ماضی اور حال کے اعمال و بیانات سے انکار یا ان دے یوٹرن لینا ملکی سیاست میں منفرد ریکارڈ ہے۔۔ پاکستانی سیاست کو ایسا آئٹم اس سے پہلے پیر الطاف حسین کی صورت میں ملا تھا ۔مارچ 2022 سے جنرل باجوہ کو غدار ، میر جعفر ، میر صادق ، جانور ثابت کرنے میں مصروف عمران خان نے درجنوں جلسے کئے اور اپنے مریدوں کو یہ سب اَزبر کروا ڈالا۔ لیکن اس کے بعد ستمبر / اکتوبرمیں خان کو منت ترلوں کے بعد اسی جنرل باجوہ سے بذریعہ صدر علوی دو بار ملاقات نصیب ہوئی ۔ جنرل باجوہ کا چھوٹتے ہی طنز یہ تھا کہ ،’’آپ تو مجھے غدار سمجھتے ہیں پھر ملاقات کی تڑپ کیوں؟‘‘ ، عمران ہڑبڑا گئے ، بولے ’’وہ تو میں نواز / شہباز کیلئے کہتا ہوں‘‘۔ یعنہ کپتان تب بھی کھرا اور آج بھی سچا ہے۔

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ اگر جنرل باجوہ نے قرآن اُٹھا کر کوئی سچ بولنا ہی ہے تو پھر مرنے سے پہلے عمران خان کو ملک پر مسلط کرنے سمیت ایسی تمام میٹنگز کا قرآن پکڑ کر احوال بتائیں۔

حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ حال ہی میں عمران خان نے پہلے شیخ مجیب الرحمن کی مثال دے کر خود کو عوام کا ہیرو بنانے کی کوشش کی لیکن جب سخت ردعمل آنا شروع ہوا تو یوٹرن لے گئے اور بولے کہ مجھے تو اس ویڈیو ٹوئیٹ کا پتہ ہی نہیں تھا جو سانحہ مشرقی پاکستان اور مجیب الرحمن سے متعلق تھی اور پارٹی کے افیشل اکاؤنٹ سے پوسٹ کی گئی تھی۔ لیکن ہمیں شیخ مجیب اور عمران خان کی سیاست کا موازنہ کرنا ہوگا ، اور جنرل یحییٰ اور جنرل عاصم میں مماثلت ڈھونڈنا ہوگی ۔ شیخ مجیب زندگی بھر کبھی کسی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے زیر استعمال نہیں رہا تھا جبکہ عمران خان کی 28 سالہ سیاست کا محور ، آغاز انجام سب اسٹیبلشمنٹ کا مرہون منت رہا۔ کپتان آج بھی سیاست میں فوج کے کردار کا مخالف نہیں اور صرف یہ چاہتا ہے کہ جنرل عاصم منیر موجودہ حکمرانوں کو فارغ کر کے اسے گود میں اٹھا لے۔
چنانچہ آج پھر پاکستان کی جان شکنجے میں پھنسی ہے، اور نکلنے کے سارے راستے مسدود ہیں۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان جیسے موقع پرست سیاست دان مستی میں پاکستان کیخلاف سازشوں کو اپنی کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں۔ یہی کچھ آج کی تحریک انصاف اور اسکے بانی کا بیانیہ بھی ہے اور یہی کچھ اِنکی عوامی لیگ سے مماثلت ہے۔ اسی سے تعین کرنا ہے کہ اصلی وطن دشمن اور غدار کون ہے؟ آج عمران خان فرسٹریشن میں شیخ مجیب کی طرح پاکستان دشمنوں کے استعمال میں ہیں اور ان سے اپنی اُمیدیں باندھ چکے ہیں۔ عمران چشم تصور میں سال 1971ءاور پاکستان کو ہلکان دیکھ رہے ہیں۔ لیکن مجھے امید یے کہ جنرل عاصم منیر بچائے گا پاکستان !

Back to top button