وفاقی حکومت کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست خارج کرنے کی استدعا

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر درخواست مسترد کرنے کی استدعا کردی۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں موقف اپنایا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے نہ انتحابات میں حصہ لیا اور نہ ہی مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع کرائی۔وفاقی حکومت نے استدعا کی ہے کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل خارج کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جائے۔

اٹارنی جنرل نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ جو سیاسی جماعت انتحابات میں حصہ لے اور کم از کم ایک سیٹ جیتے اسے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں اور قانون کے مطابق مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ فراہم کرنا ہوتی ہے۔ ’مخصوص نشستیں اقلیتوں اور خواتین کے لیے رکھی گئی ہیں، آزادامیدوار انہی پارٹیوں میں شامل ہوسکتے جو پارلیمنٹ میں موجود ہوں‘۔اٹارنی جنرل کی جانب سے مخصوص نشستیں مختص کرنے کا فارمولا بھی درج کیا گیا ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ اقلیتوں اور خواتین کو نمائندگی اور معاشرے میں اہمیت دینے کے لیے مخصوص نشستیں رکھی جاتی ہیں۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے اور کم سے کم ایک سیٹ جیتنے والی اور مخصوص نشستوں والی لسٹ مہیا کرنے والی سیاسی جماعتوں کو ہی مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔اٹارنی جنرل کے مطابق ایک آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے بعد اس کا حصہ بن جاتا ہے، قومی اسمبلی کا حلف لینے کے بعد آزاد امیدوار پارلیمانی پارٹی کا حصہ بن جاتا ہے جبکہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا اسمبلی کے رکن بنے نہ ہی انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل پارلیمنٹ ہاؤس کا حصہ بنی۔

جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 51, 106 کے مطابق آزاد امیدوار پارلیمنٹ میں سنی اتحاد کا حصہ نہیں بن سکتے۔ سنی اتحاد میں شامل ہونے والے آزاد امیدواروں کی حیثیت پارلیمنٹ میں آزاد امیدوار کی ہی ہوگی، جبکہ سنی اتحاد کا مخصوص نشستیں مانگنا آئین کے خلاف ہے۔انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنی مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ انتخابات سے قبل جمع کروائی۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات سے قبل اپنا منشور عوام کو نہیں دیا، انہیں بیک ڈور سے اسمبلیوں میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ سنی اتحاد کی اپیل سے جمہوریت کو خطرہ ہوگا اور انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ اقلیتوں اور خواتین کی مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو ہی ملتی ہیں جو اسکروٹنی کے لیے لسٹ مہیا کریں، مخصوص نشستوں کا تعین کرنے کے لیے آزاد امیدوار یا انتخابات میں حصہ نہ لینے والی سیاسی جماعتوں کو بروئے کار نہیں لایا جائےگا۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے مختلف مثالیں دے کر بھی مخصوص نشستیں مختص کیے جانے کے عمل کو سمجھایا گیا ہے۔

 

Back to top button