صدر عارف علوی کا ریکارڈ دیکھیں تو وہ انتخابات نہ کراتے، چیف جسٹس

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر صدر عارف علوی کا ماضی کا ریکارڈ دیکھیں تو انتخابات نہ کراتے، صدر مملکت عارف علوی پی ٹی آئی کے ہو کر کیوں انتخابات کی تاریخ نہیں دے رہے تھے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فُل کورٹ نے کیس کی سماعت کررہا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل کا آغاز کیا۔ سکندر مہمند نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل میں شامل 81 آزاد ارکان کے کاغذات نامزدگی بھی منگوائے تھے، تمام ریکارڈ ضلعی سطح پر ہوتا ہے مکمل ریکارڈ نہیں ملا لیکن اسکی سمری موجود ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ تحریک انصاف کی ترجیحی فہرست بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ حامد رضا نے حلف لے کر کہا میں تو تحریک انصاف نظریاتی میں ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے مطابق الیکشن کمیشن نے حامد رضا کو ٹاور کا نشان دیا، ریٹرننگ افسران بھی تو الیکشن کمیشن کے ہی آفیشلز ہیں۔ وکیل نے بتایا کہ حامد رضا کی سب سے آخری درخواست پر الیکشن کمیشن نے عمل درآمد کیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ حامد رضا نے کس سیاسی جماعت سے خود کو منسلک کیا؟

پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق بننے کی درخواست

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جو ریکارڈ ہے ہمیں دکھائیں، ورنہ تو ہوا میں بات ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی واپس لینے کے بعد کسی امیدوار کو اختیار ہے کہ اپنی پارٹی تبدیل کرلے؟ کیا کوئی امیدوار کہہ سکتا ہے کہ فلاں پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی کا ٹکٹ لینا چاہتا ہوں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے کاغذات نامزدگی کا کیس ہے، ریٹرننگ افسران کے پاس امیدوار کے کاغذات نامزدگی کے ساتھ منسلک پارٹی سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے؟

وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن سے جو آخری درخواست ہو اس کے ساتھ جانا ہوتا ہے، پہلے والا فارم الیکشن کمیشن نے کیوں نہیں دیکھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک شخص اگر شادی کرنا چاہے لیکن لڑکی کی بھی رضامندی ضروری ہے نا، جس پارٹی سے انتخابات لڑنے ہیں اسی کی پارٹی سے منسلک ہونے کا سرٹیفیکیٹ لگانا ضروری ہے نا؟ سرٹیفیکیٹ تحریک انصاف نظریاتی اور ڈیکلریشن منسوخ پی ٹی آئی کا کریں تو قانون کیا کہتا؟ کیا آپ کسی کو انتخابات سے باہر کرسکتے ہیں؟

وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ ریٹرننگ افسران کے لیے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے آسان راستہ تھا کہ ایسے امیدواروں کو آزاد ظاہر کیا جائے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا ایسا ہوا کہ امیدوار کہے میں ایک پارٹی کا ہوں، اسی کا سرٹیفیکیٹ بھی دے لیکن الیکشن کمیشن نے اسے آزاد امیدوار ظاہر کر دیا ہو؟ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ ایسے امیدوار تھے لیکن انہوں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لی۔ جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ کیا دستاویزات سے ظاہر نہیں ہوتا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کا غیر سنجیدہ رویہ تھا؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ نشان سے کنفیوژ نہ کریں، ہم تحریک انصاف کے امیدوار کیوں نہ تصور کریں، سرٹیفیکیٹ میں تضاد نہیں، الیکشن کمیشن امیدوار کی حیثیت تبدیل کر رہا ہے، جس پارٹی کا سرٹیفیکیٹ لایا جا رہا اسی پارٹی کا امیدوار کو تصور کیوں نہیں کیا جا رہا؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے جو سمجھ آرہا کہ امیدوار کے پاس اختیار نہیں کہ آخری تاریخ گزرنے کے بعد اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئےکہ مفروضوں والی باتیں کیس میں نہ کریں۔ وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے پشاور کے پانچ رکنی بینچ کو مطمئن کیا، میرے دلائل کو ججز نے باہر نہیں پھینکا۔

Back to top button