پروفیسر وارث میر کی داستان حریتِ فکر

تحریر:عامر میر
دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر سچا دانشور لکھاری، صحافی اور ناقد، جس نے باغیانہ روش اپناتے ہوئے اپنے دور کے مروجہ دقیانوسی نظام اور اس کے پس پردہ کرداروں کا چہرہ بے نقاب کرنے کی کوشش کی، اُسے جواب میں ہر طرح کی مخالفت، مشکلات اور فتووں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس امتحان میں سرخرو وہی اہل قلم و دانش گردانے گئے جو اپنے موقف کی سچائی پر قائم رہے اور اس جدوجہد میں اپنی جان سے گزر گئے۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں صرف 48 برس کی عمر میں پراسرار حالات میں انتقال کر جانے والے وارث میر نے اپنی زندگی حریت فکر کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزاری، چنانچہ آزادی اظہار، شخصی آزادیوں اور سچ گوئی سے کمٹ منٹ انکی تحریروں میں جا بجا نظر آتی ہے۔ وارث میرکا مؤقف تھا کہ کسی بھی قوم کی ترقی و تنزلی میں اس کے اہل فکر و دانش کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں میں قاری کو مسلسل حریت فکر کے علم برداروں سے ملنے کا موقع ملے گا۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی حریت فکر کے راہی تھے اور فکر اور سوچ پر پہرے برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے۔ حریت فکر سے متعلق ان کی تحریروں میں ان دانشوروں کی جدوجہد کے قصے پڑھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے اپنے ذہن و ضمیر پر لگائے گے ریاستی پہرے قبول کرنے سے انکار کردیا حالانکہ انہیں اس عمل کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ یہ وہ دانشور تھے جنہوں نے اپنے اپنے عہد کے جابر حاکم کے خلاف فکر، شعور اور عزم و ہمت کی تلوار سے جنگ لڑی اور ضمیر کی شمع کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تھمانے کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔
پروفیسر وارث میر خود بھی ایسے ہی ایک معتبر دانشور تھے جنہوں نے بے لاگ اور بے باک صحافت کی آبیاری خون دل سے کی اور اسے ایک نئی جہت عطا کی۔ آج کئی دہائیوں بعد بھی وارث میر کی تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ہمیشگی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے اور وہ آج بھی تازہ محسوس ہوتی ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں جہاں ان درباری دانشوروں، صحافیوں اور ادیبوں کے بارے لکھا جنہوں نے دنیاوی عہدوں اور آسائشوں کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کیا، وہیں انہوں نے ماضی کے ان باضمیر اور باکردار دانشوروں، صحافیوں اور ادیبوں کے بارے میں بھی بتایا جو حریت فکر کے راہی ٹھہرے اور جنہوں نے تمام تر لالچ اور دبائو کے باوجود ببانگ دہل سچ لکھا اور دنیاوی مصلحتوں کا شکار ہونے سے انکاری رہے۔ انکی زیادہ تر قابل ذکر تحریریں جنرل ضیاء کے مارشل لا ء دور کی تخلیق ہیں جب صحافت پابند سلاسل تھی اورترقی پسند اور حریت پسند دانشوروں کو ملک دشمن اور غدار قرار دیا جاتا تھا۔
ضیا ء دور میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں وارث میر لکھتے ہیں: ’’مسلمان معاشرے نے اپنے سیاسی عروج میں یقینا ایسا علم پرور ماحول مہیا کیا تھا جس کی گود میں بڑے بڑے تخلیقی مفکرین اور روایت شکن دانشور پروان چڑھے۔ ایسے دانشور جنہوں نے وقت کے حاکموں کے نظریات اور خیالات کو چیلنج کیا، ان سے اختلاف کیا اور معاشرے کو سرکاری سانچے میں ڈھالنے کی کوششوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے سچائی کے ساتھ کمٹ منٹ کی خاطر سٹیٹ مشینری کے ظلم و ستم برداشت کیے لیکن اقتدار کی مصلحتوں سے مزین آہنی ٹوپی اپنے سر پر پہننے سے انکار کردیا‘‘۔ اپنی ایک اور تحریر میں جدید علوم کے مخالف رجعت پسند جہادی ملائوں پر تنقید کرتے ہوئے وارث میر لکھتے ہیں: ’’میں ان علما سے اتفاق نہیں کرتا جو قرآن پاک کی آیات میں سائنسی فارمولے تلاش کرتے پھرتے ہیں، بجائے اسکے کہ سائنسی فکر اور سوچ اپنائیں اور زندگی کی سچائیاں تلاش کریں۔‘‘

مخصوص نشستوں کا کیس: سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

وارث میر مسلمانوں میں پائے جانے والی بے جا تقلید، رجعت پسندی اور فرقہ پرستی کے رجحانات کے ناقد تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ مسلمانوں کو ماضی کے حوالے سے جذباتیت اور رومانیت سے نکل کر خود تنقیدی کی نظر پیدا کرنی چاہئے تاکہ ماضی کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے حال اور مستقبل کو بہتر بنایا جاسکے۔ وہ اختلاف رائے کو برا نہیں جانتے تھے کہ اس سے سوچ کے نئے در کھلتے ہیں۔ ان کے مطابق ’’سوچنا ، سوال کرنا، شک کرنا اور انکار کرنا علم و معرفت کی پہلی سیڑھی ہے۔‘‘ وہ اس نظریے کے علمبردار تھے کہ پاکستان کا سیاسی اور اقتصادی نظام عوامی خواہشوں کے مطابق تشکیل دیا جانا چاہئے، اسی لئے انہوں نے ضیا مارشل لاء دور میں ریاستی پالیسیوں کی ڈٹ کر مخالفت کی اور انہیں عوامی امنگوں کا قتل عام قرار دیا۔ 25 برس سے زائد عرصہ پر محیط اپنے صحافتی کیریئر کے دوران وارث میر نے سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف لکھنے کے علاوہ جمہوریت، حریت فکر، انسانی حقوق، حقوق نسواں، دائیں اور بائیں بازو کی سیاست اور صحافت، آزادی ٔ اظہار اور اجتہاد سمیت سینکڑوں امور پر لکھا۔
جب جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے مارشل لاء نافذ کیا تو وارث میر نے اپنی تحریروں میں اس آمرانہ طرز عمل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی۔ 1984 میں جب جنرل ضیا الحق نے اپنے اقتدار کو مزید طول دینے کے لئے اسلام کے نام پر ریفرنڈم کروایا اور 1985 میں غیرجماعتی الیکش کروائے، تو وارث میر نے ان دونوں اقدامات کی مخالفت میں بھی پوری طاقت سے اپنا قلم استعمال کیا۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا: ’’جس طرح ماضی کے مطلق العنان مسلمان بادشاہوں نے قرآن و حدیث کی تعبیر و تشریح کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کیا، بالکل اسی طرح 1977 کے بعد سے قائم غیرجمہوری حکومت کے فوجی سربراہ مملکت قرآن و حدیث کو اپنے اقتدار کا دورانیہ بڑھانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید لکھا ’’یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں فوج ا ور فوج کی وساطت سے بیوروکریسی کی حکومت ہے۔ جو حکومت فوج کی گردن پر سوار ہو کر قائم ہوتی ہے، اسے مارشل لاء کا شیر نیچے اترنے کی مہلت نہیں دیتا۔ آج حکمرانی کے جھولے لینے والے فوج کے شیر ہی پر سوار ہیں اور وہ نیچے اترنے کے لئے تب تک تیار نہیں جب تک عوام اس شیر کو بھی شریک ِ اقتدار کرنے کی ضمانت دے کر اسکی جان کو محفوظ نہیں کر لیتے۔‘‘
اپنے ایک اور مضمون میں وارث میر نے لکھا: ’’میرا یہ یقین ہے کہ اس جامد نظام کی تبدیلی تک کہ جس میں فکر اور سوچ محبوس ہو اور اظہار پابند، انسانیت کی فلاح سے وابستہ کوئی بھی مسئلہ قابل حل نہیں۔ زندگی متحرک اور ارتقاء پذیر ہے۔ جو قوتیں اس ارتقاء میں معاون ثابت ہوتی ہیں ،ترقی پسند ہیں اور جو اس عمل کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں، وہ رجعت پسند ہیں‘‘۔ جب جنرل ضیا نے شریعت بل کے ذریعے عورت کو آدھا قرار دینے کی کوشش کی تو وارث میر نے ’’کیا عورت آدھی ہے‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ مضامین شروع کیا جس میں انہوں نے اسلامی تعلیمات، قرآن مجید اور احادیث کے حوالے دے کر یہ ثابت کیا کہ مرد کے مقابلے میں کسی طور بھی عورت آدھی حیثیت نہیں رکھتی۔ وارث میر نے اس حوالے سے جو بھی لکھا، مکمل تحقیق اور دلائل کی بنیاد پر لکھا، جس کو رد کرنا ’’ملا ملٹری اتحاد‘‘ کے بس کا روگ نہیں تھا۔ انکا موقف تھا کہ عورت کو قید رکھنے والا معاشرہ خود بیمار ہوتا ہے۔
حریت فکر کے پُر خطر سفر میں وارث میر کو ہر طرح کی مشکلات، دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن وہ پر عزم رہے کیونکہ حق اور سچ گوئی کی جنگ میں پیچھے ہٹنا ان کا شیوہ نہیں تھا۔ انکا کہنا تھا کہ میں ظالم کو ظالم نہ کہنے کو گناہ کے مترادف سمجھتا ہوں، ضیا دور میں تمام تر دھمکیوں اور دباؤ کے باوجود وارث میر کے قلم کی کاٹ بڑھتی ہی چلی گئی۔ وہ جس راستے پر سفر کر رہے تھے، وہ پر خار اور دشوار تھا لیکن وہ اس پر گامزن رہے، چونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ سچائی کا راستہ تھا۔ وارث میر 9 جولائی 1987 کو پراسرار حالات میں صرف 48 برس کی عمر میں اچانک انتقال کر گئے۔ لیکن جسمانی طور پر اس جہان فانی سے گزرجانے کے باوجود وارث میر اپنی تحریروں کی بدولت آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔

Back to top button