مریم نواز نے لاہور آمد پر صدر زرداری کا استقبال کیوں نہیں کیا؟

سینیئر صحافی او تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے پیپلز پارٹی کے ایک پنجابی جیالے کی جانب سے صدر آصف زرداری کے نام خط لکھتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے صدر بننے کے بعد انکی پہلی مرتبہ لاہور آمد پر ان کا استقبال تک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ خط میں یاد دلایا گیا یے کہ 9 جولائی کو لاہور آمد پر ملک کے آئینی سربراہ کا استقبال اس کی اتحادی جماعت کی وزیراعلیٰ نے کرنے کی بجائے ایک صوبائی وزیر کو ائیرپورٹ بھیج دیا۔ مریم نے بعد میں بھی صدر کے قیام کے دوران انہیں کرٹسی کال کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا حالانکہ جب نوازشریف نے بطور وزیراعظم سندھ کا دورہ کیا تھا تو وہاں کے وزیراعلیٰ انکے ساتھ ساتھ تھے اور بلاول بھٹو نےخاص طور پر خود جا کر نوازشریف کا استقبال کیا تھا۔

سہیل وڑائچ پیپلز پارٹی کے جیالے کی جانب سے لکھے خط میں کہتے ہیں، پیارے صدر زرداری صاحب!میں ایک گم نام جیالا ہوں۔ فخرِ ایشیا ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے جس بہادری سے عوام کے خاطر لڑتے ہوئے اپنی جانیں دیں اس نے مجھے جیالا بنا ڈالا۔ یہ خط لکھنے کا مقصد صرف حالات حاضرہ پر ااپنا تبصرہ پیش کرنا ہے۔ مجھے علم ہے کہ آپ نے نواز شریف کی بیٹی اور وزیر اعلی پنجاب کی بے اعتنائی کا برا نہیں منایا ہوگا مگر اس طرز عمل سے میرا دل کھٹا ہوگیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ساری صوبائی کابینہ ایئرپورٹ پر جا کر آپ کا استقبال کرتی اور آپ کو بحیثیت اتحادی پنجاب حکومت کی کارکردگی پر بریفنگ دی جاتی مگر ایسا کچھ بھی نہ کیا گیا بلکہ آپ ناراض نہ ہوں تو کہہ دوں کہ آپ کو نظر انداز کیا گیا، یہ اور بات ہے کہ اپ کا دل بہت بڑا ہے۔

سہیل وڑائچ جیالے کی جانب سے خط میں مزید لکھتے ہیں کہ مجھے اندازہ ہے کہ وفاقی بجٹ پر آپ اور آپ کی جماعت سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا، پیپلزپارٹی چاہتی تھی کہ زراعت اور زرعی صنعتی شعبے کو ترقی دی جائے مگر وفاقی حکومت کی ترجیح صنعت ہے۔ زرعی ٹیکس پر بھی آپ کےتحفظات تھے مگر آپ نے اسے بھی کڑوی گولی خیال کرتے ہوئے نگل لیا۔ نج کاری کے حوالے سے بھی آپ کے نونی حکومت سے اختلافات ہیں آپ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو نج کاری سے بہتر قرار دیتے ہیں اور سندھ حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت کئی کامیاب منصوبے مکمل کر چکی ہے حتیٰ کہ بہت ساری سڑکیں بھی نجی شعبے نے تعمیر کی ہیں اور اس کے بعد نجی شعبہ ٹال ٹیکس کے ذریعے اپنی وصولی کر رہا ہے۔

خط میں مزید لکھا ہے کہ جناب زرداری صاحب!

مجھے آپ سے بھی گلہ ہے کہ آپ کو مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ آج کل ملک بحرانوں میں گھرا ہے، آپ ہمہ وقت سرکاری مصروفیات میں شریک رہتے ہیں لیکن بحرانوں کے حل کےحوالے سے آپ مکمل طور پر خاموش ہیں، کیا پاکستان کو اس وقت مفاہمت کی ضرورت نہیں ہے؟ اگر ہے تو آپ کو کس چیز نے اس معاملے میں پہل کرنے سے روک رکھا ہے؟ آپ سے یہ گزارش بھی کرنی ہے کہ مہنگی بجلی نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے جس طرح آپ کے پچھلے دور حکومت میں لوڈشیڈنگ نے لوگوں کو آپ سے ناراض کر دیا تھا اس بار نون لیگ مہنگی بجلی کی وجہ سے تیزی سے غیر مقبول ہو رہی ہے، غریب کی اتنی تنخواہ نہیں جتنا اس کا بجلی کا بل آ رہا ہے؟ مڈل کلاس نے جیسے تیسے کرکے سولر لگا لئے ہیں لیکن آج تک سولر کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی جا سکی۔ سولر لگانے والے گھروں سے بہت سستی بجلی خریدی جاتی ہے اور انہیں مہنگی بجلی مہیا کی جا رہی ہے، حد تو یہ ہے کہ ایسی کوئی امید بھی نہیں دلائی جا رہی کہ بجلی کب سستی ہو گی؟ اور وہ کونسے ایسے اقدامات ہیں جو حکومت ،بجلی سستی کرنے کیلئے، کر رہی ہے؟۔

سہیل وڑائچ جیالے کے خط میں مزید لکھتے ہیں کہ جناب صدر!!

آپ کو آپ کے نظریاتی مخالف ڈاکٹر مجید نظامی نے بہادری اور پامردی سے جیل کاٹنے کی وجہ سے ’’مردِ حر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ جس طرح آپ اور نواز شریف کو جیلیں کاٹنا پڑیں آج اسی طرح عمران خان اس عذاب میں مبتلا ہے، جناب آپ مردِ حر ہیں، آپ کو تو یہ احساس ہونا چاہئے کہ جو ظلم آپ کے ساتھ ہوتارہا وہ آپ ہی کی حکمرانی میں کسی اور سیاستدان کیساتھ کیوں ہو رہا ہے، آپ کی خاموشی جرم کے مترادف ہے آپ کو اس حوالےسے انسانی ہمدردی، جمہوریت اور انسانی حقوق کا خیال رکھتےہوئے اپنے تئیں بھرپور کوشش کرنی چاہیے اور یہ کوشش نظر بھی آنی چاہیے تاکہ کل کو عمران خان کو جیل میں تادیر بند رکھنے کا الزام آپ پر نہ آئے۔ برسوں تک پیپلزپارٹی فوج کا نشانہ رہی، لہازا اسے مظلوم سمجھا جاتا تھا۔ اب یہی صورتحال تحریک انصاف کی ہے آج کی مظلوم پارٹی وہ ہے اور پنجاب کے عوام مظلوموں کیلئےہمیشہ سےہمدردی رکھتےرہے ہیں۔

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ محترم زرداری صاحب!

سندھ میں آپ کی پارٹی کی حکومت 15سال سے چل رہی ہے۔ سندھ پارٹی قیادت کے مستقبل کیلئے شوکیس کی حیثیت رکھتا ہے، اگرسندھ میں بہترین کارکردگی ہوگی تو پنجاب اور دوسرے صوبوں میں مثال دی جا سکے گی کہ پیپلزپارٹی نے سندھ میں کمال کر دکھایا ہے اور اگر موقع ملا تو پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بھی ایسا ہی پرفارم کرے گی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بہت قابل سمجھے جاتے ہیں مگر تمام تر قابلیت اور اہلیت کے باوجود  انکا میڈیا سے رابطہ بالکل عثمان بزدار کے لیول کا ہے۔ بزدار میڈیا سے ڈرتے تھے، اور سوالات کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے، یہی حال مراد علی شاہ کا ہے۔ سندھ حکومت بہت سے کام کرنے کےباوجود گونگی ہے کیونکہ مراد شاہ میڈیا میں رول ماڈل نہیں بن سکے۔ اگر پیپلز پارٹی نےسندھ سے باہر جگہ بنانی ہے تو مراد شاہ کو اپنی گونگی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی اور بزدار کی بجائے عمران خان کے میڈیا ماڈل کو اپنانا ہوگا۔

مونس الٰہی سمیت 9 ملزمان کی جائیدادیں منجمد کرنے کا حکم

صدر زراری کے نام خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ اس وقت تو پنجاب میں تحریک انصاف اور نون لیگ میں ہی براہ راست مقابلہ ہے اسلئے سنٹرل اور نارتھ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جگہ ہی نہیں بن رہی اگر تو مڈٹرم الیکشن ہوئے تو تب بھی مقابلہ انہی دو جماعتوں میں ہوگا پیپلز پارٹی کو جنوبی پنجاب سے وہی نشستیں مل جائیں گی جو اس کے پاس ہیں تاحال نون لیگ ڈیلیور کرنے میں ناکام ہے اس لئے الیکشن ہوا تو تحریک انصاف کیلئے واک اوور ہوگا۔ یہ تلخ بات بھی کہنے دیجئے کہ 2008ءکےبعد سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ایک بھی نیا ووٹر نہیں ملا ،سب ووٹر پہلے سے پیپلز پارٹی کیساتھ ہیں۔ بلاول بھٹو کیلئے گڈول موجود ہے نفرت نہیں بلکہ اس کیلئے محبت بھی ہے مگر روٹی کپڑا اور مکان کا صرف نعرہ اب نہیں چل سکتا، لوگ مکمل منصوبہ جاننا چاہتے ہیں، بلاول کیا تبدیلی لائے گا اس کے بارے میں کوئی بھی قابل قبول اور متاثرکن وژن سامنے نہیں آسکا۔ بلاول ذہین ہے، قابل ہے لیکن ابھی تک ورکرز سے وہ ربط پیدا نہیں کرسکا جو بھٹو اور بے نظیر کا تھا۔ وہ جیالوں، غریبوں اور محروموں کیلئے گرم جوشی دکھاتے تھے بلاول بھٹو تمام ترخوبیوں کے باوجود ایسا نہیں کر پاتے۔ کئی سال سے پنجاب میں پارٹی کی تنظیم ہی نہیں ہے وکلا اور پڑھے لکھے طبقات میں پارٹی نفوذ کر سکتی ہے مگر کوشش ہی نہیں ہو رہی۔ بھٹو صاحب تو خود خط لکھ کر اور ملاقاتیں کرکے پڑھے لکھے نوجوانوں اور پروفیشنل لوگوں کو پارٹی میں لاتے تھے اب ایسا کیوں نہیں؟

Back to top button