سپریم کورٹ کے ججز PTI کو سیٹیں تو دے سکتے ہیں، اقتدار نہیں

 

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان نے کہا ہے کہ ججز تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں سیٹیں تو دلوا سکتے ہیں لیکن اقتدار نہیں دلوا سکتے۔ اقتدار لینے کے لیے عمران کو بالآخر فوج ہی سے ڈیل کرنا پڑے گی۔ باقی دنیا میں جمہوریت نمبرز گیم سمجھی جاتی ہے۔ یعنی جس نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں اسے حکومت سازی اور اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر ہمارے ہاں جس نے نمبرز گیم کے سراب سے دھوکہ کھایا وہ بے موت مارا گیا۔ ثبوت یہ ہے کہ آج تک پاکستان میں کوئی حکومت جیتی ہوئی نشتسوں کی تعداد پر یقین کرنے کے باوجود اپنی مدت پوری نہیں کر پائی۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان نے متحدہ پاکستان کے پہلے اور آخری بالغ رائے دہی والے انتخابات میں قطعی اکثریت حاصل کر کے کیا کما لیا؟ بھٹو نے ’ایک آدمی ایک ووٹ‘ کی بنیاد پر کتنے برس حکومت کر لی؟ محمد خان جونیجو کی سادہ اکثریتی حکومت جرنیلوں کو سوزوکی میں بٹھانے کا اعلان کرنے کے بعد کتنے دن پورے کر سکی؟ ان موزی نمبرز نے بے نظیر بھٹو کا دونوں بار کتنا ساتھ دیا حالانکہ انھیں بار بار خبردار کیا گیا کہ آپ اپنے حامی ارکانِ پارلیمان شمار کرنے کے بجائے یہ گنتی کریں کہ کتنے حساس ادارے آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں؟
اسی طرح نواز شریف نے جب دوسری باری میں دو تہائی اکثریت لے لی تو ان کی چال ہی بدل گئی اور پھر اسی اکثریت کے رسے سے ان کی مشکیں کس دی گئیں۔ کہیں تیسری بار نمبرز کا دھوکہ کھانے کے بعد انھیں سمجھ میں آیا کہ ووٹ کو بس اتنی عزت دو جتنی عام آدمی کو اس ملک میں حاصل ہے۔ اعتبار کرنا ہی ہے تو ووٹ گننے والوں کا کرو۔ جب میاں صاحب کو یہ سمجھ ائی تو جنرل باجوہ کو دوسری ایکسٹینشن دینے کی حمایت بھی کر دی حالانکہ ماضی میں انہوں نے ہر ارمی چیف کو توسیح دینے سے صاف انکار کیا۔

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ یہ فارمولا سمجھ میں ا جانے کے بعد نواز شریف کی پارٹی پھر سے اقتدار میں آ گئی۔ ایوان میں ارکان کی تعداد کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر کو ساتھ لگا کر ان کی جماعت کو اقتدار تک پہنچا دیا گیا۔ اس سے سبق یہ ملا کہ ہمارے ساتھ بنا کے رکھو گے، ہر فرمائش پوری کرو گے اور اچھے بچوں کی طرح چلو گے تو فارم پینتالیس فارم سینتالیس میں ضم ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں کی راہ اختیار کرو گے تو ایوان میں سب سے زیادہ نشستیں ہونے کے باوجود ایک مقدمے سے دوسرے مقدمے تک جوتیاں چٹخاتے پھرو گے۔

9 مئی کیس: یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ سمیت دیگر کی ضمانت منظور

وسعت اللہ خان کہتے ہیں کہ یہ راز ایک زمانے تک اس ملک کی سب سے مقبول جماعت رہنے والی پیپلز پارٹی کو سمجھنے میں چالیس برس لگے۔ نوے کی دہائی کی سب سے مقبول جماعت مسلم لیگ نون کو یہی سادہ سی بات سمجھنے میں تین الیکشن لگے اور اب نسبتاً گرم خون والی پی ٹی آئی کو بھی یہی سمجھانے کی پوری کوشش ہو رہی ہے کہ جس عدالت کا دروازہ چاہے کھٹکا لو، جتنی نشستوں کے نتائج چیلنج کرنے ہیں کر لو۔ جتنی ضمانتیں لینی ہیں لے لو۔ بیرونِ ملک جتنی لابنگ کرنی ہے کر ڈالو۔ پر جب تھک جاؤ اور سارے ارمان پورے ہو جائیں تب آ جانا۔ کچھ نہ کچھ ایڈجسٹمنٹ کر لیں گے۔ اب اگر سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر من و عن عمل ہو جاتا ہے تو قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد بانوے سے بڑھ کے ایک سو چودہ تک پہنچ جائے گی۔ یوں وہ مزید اکثریتی جماعت بن جائے گی۔مگر حکومت سازی کے لئے اسے جو سادہ اکثریت درکار ہے اس تک پہنچنے کے لئے اٹھاون اضافی ارکان کی حمائیت چاہیے۔ ایسے میں ایک راستہ تو یہ ہے کہ عدلیہ کی زنجیر ہلا کر فارم پینتالیس اور سینتالیس کا موازنہ کروا کے کچھ اور نشستیں چھڑوا لی جائیں۔ مگر یہ کام اتنا ہی آسان ہوتا تو آٹھ فروری کے انتخابات کا انتظام کرنے والوں کو اتنی محنت اور خرچہ کیوں کرنا پڑتا۔ لہذا اس آپشن پر دست بدست قانونی و ماورائے قانون جنگ کے بغیر عمل نہیں ہو سکتا۔ دوسری راہ یہ ہے کہ اقتدار بانٹنے والوں سے کچھ مک مکا ہو جائے اور اس مک مکا کے نتیجے میں پہلے کی طرح اب بھی لیز پر چند جماعتوں کی بیساکھی فراہم کر دی جائے۔ مگر یہ راستہ بدزنی کی موجودہ فضا میں غصے اور انتقام کی جھاڑیوں سے اٹا پڑا ہے اور کوئی ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔

وست اللہ خان کہتے ہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو اپنی طاقت اور کمزوریوں کا تو اندازہ ہے مگر خان کے موڈ کا کچھ ادراک نہیں۔ بلکہ شاید خان کو بھی نہیں۔فوجی اسٹیبلشمنٹ بطور بادشاہ گر اپنی اب تک کی کامیابیوں کے سرور میں مبتلا ہے اور جیل میں قید عمران خان کو مستقبل کے سہانے سپنوں نے اب تک کھڑا رکھا ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عدالتیں بھلے کسی بھی دستوری غلطی کو سیدھا کر لیں۔ ان کے فیصلوں کے باوجود مستقبلِ قریب میں سیاسی استحکام آنے کا کوئی امکان نہیں۔ کسی سیاسی و غیر سیاسی قوت کے پاس اس دلدل سے نکلنے کا کوئی بلیو پرنٹ نہیں۔ اب تو دور دور تک کوئی نواب زادہ نصراللہ خان بھی نہیں۔ ایسے میں کوئی بھی جیتے لیکن پاکستان ایک بڑے مارجن سے ہار رہا ہے اور فیصلہ ساز دیکھ رہے ہیں۔

Back to top button