سپریم کورٹ کے 8 ججز عمران خان کے سہولت کار کیسے بنے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے مخصوص سیٹوں کے فیصلے کے بعد سب سے بڑا آئینی سوال یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ کیا کوئی آزاد رُکن اسمبلی حلف نامہ دے کر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوجانے کے بعد اپنا حلف توڑ کر کسی دوسری جماعت میں شامل ہوسکتا ہے؟ کیا اس پر فلور کراسنگ کا قانون عائد نہیں ہو گا؟ کیا سپریم کورٹ کسی رُکن اسمبلی کو حکم دے سکتی ہے کہ وہ فلاں جماعت سے نکل کر فلاں جماعت میں چلا جائے؟ ایسا کرنے سے کہیں آئین کے آرٹیکل 62۔63 کا اطلاق تو نہیں ہوجائے گا؟

عرفان صدیقی اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے تیرہ رُکنی بینچ میں شامل آٹھ معزز جج صاحبان کے ’’تاریخ ساز‘‘ فیصلے کی رُو سے خواتین اور اقلیتوں کی متنازعہ نشستیں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والی ’’سُنّی اتحاد کونسل‘‘ کو ملیں گی نہ اسمبلیوں میں موجود دوسری جماعتوں کو۔ اِن نشستوں کے حقدار، مختلف اسمبلیوں میں بیٹھے وہ افراد ہیں جنہوں نے کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ یا نشان پر الیکشن نہیں لڑا، جو آزادانہ حیثیت سے انتخابی اکھاڑے میں اترے، جنہوں نے اسمبلیوں میں آجانے کے بعد بھی پی۔ٹی۔آئی سے وابستگی کا اعلان کرتے ہوئے کوئی اجتماعی نظم قائم نہیں کیا، جو آئین وقانون کی دی گئی معیاد کے اندر اندر بہ قائمی ہوش وحواس اور بصد عجز ونیاز اپنی آزادانہ مرضی وخوش دِلی سے ایک اور رُکن سے جاملے جو اُنہی کی طرح بطورِ آزاد اسمبلی میں آیا تھا۔ انہوں نے خود فریبی کے لئے یہ تصوّر کر لیا کہ ہم ’’سُنّی اتحاد کونسل‘‘ نامی سیاسی جماعت میں شامل ہوگئے ہیں ۔ یہ ہرگز نہ سوچا کہ ہم ایک بے چہرہ اور بے نام و نشان جماعت میں شامل ہونے کے بجائے خود اپنی جماعت، تحریکِ انصاف، کا احیا کر کے اُس میں کیوں شامل نہیں ہوجاتے؟

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ جلد ہی پی۔ٹی۔آئی اور اُس کے وکلاء کو بھیانک غلطی کا احساس ہوگیا لیکن تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ قانونی جنگ لڑنے سے پہلے وہ اِس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ اب یہ مخصوص نشستیں کسی طور پی۔ٹی۔آئی کو نہیں مل سکتیں۔ سو پی۔ٹی۔آئی نے، سُنّی اتحاد کونسل کو اُبھارا جو عدالت جا پہنچی۔ پشاور ہائیکورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے اتفاق رائے سے قرار دیا کہ یہ نشستیں پی۔ٹی۔آئی کو مل سکتی ہیں نہ سُنّی اتحاد کونسل کو۔ لہذا اُنہیں اسمبلیوں میں موجود دیگر جماعتوں میں، اُن کی تعداد کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔ سُنّی اتحاد کونسل، داد رسی کی اپیل لے کر سپریم کورٹ آگئی۔ نو طویل سماعتوں کے بعد تیرہ رُکنی بینچ میں شامل آٹھ عالی مرتبت منصفانِ نے معاملے کی نزاکت اور حساسیت کی وجہ سے آئینی وقانونی موشگافیوں میں پڑنے اور بے ثمر دماغ سوزی کرنے کے بجائے، انصاف کا ایک لامحدود، وسیع تر اور آفاقی تصوّر اپناتے ہوئے سارے معاملے کو مسندِ عدل پر بیٹھ کر دیکھنے کے بجائے پی۔ٹی۔آئی کے دِل کے نرم ترین گوشے میں آسن جمایا، آئین کی سبز کتاب ایک طرف رکھی اور طویل مراقبے کے بعد بحرِ عدل وانصاف سے یہ گوہرِ تابدار نکال کر لائے کہ بے شک پی۔ٹی۔آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے، بے شک اِس کے امیدواروں کے پاس پی۔ٹی۔آئی کا ٹکٹ تھا نہ انتخابی نشان، بے شک انہوں نے اسمبلیوں میں آنے کے بعد، آزاد ارکان کے طورپر غیر مشروط حلف اٹھالیا، بے شک اپنی آزاد حیثیت اور پی۔ٹی۔آئی سے وابستگی سے دستکش ہوکر وہ ’’سُنّی اتحاد کونسل‘‘ میں شامل ہوگئے، بے شک وہ کوئی عرضداشت اور فریاد لے کر ہمارے پاس نہیں آئے، بے شک وہ بھی مخصوص نشستیں ’’سُنّی اتحاد کونسل‘‘ کو دینے کے آرزو مند ہیں، لیکن آئین وقانون کا تقاضا جو بھی ہو، وسیع تر آفاقی انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ یہ نشستیں ایک بڑے گفٹ پیک میں باندھ کر پی۔ٹی۔آئی کے حوالے کردی جائیں۔

مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، الیکشن کمیشن نے  اجلاس طلب کرلیا

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ بلاشبہ جج صاحبان کے سامنے ’’عدلِ جہانگیری‘‘ کی ایسی کئی مثالیں موجود ہوں گی جن میں ائین کی بجائے ذاتی مصلحتوں کی بنیاد پر فیصلے دیے گئے ہوں گے۔ کوئی کچھ بھی کہے، تسلیم کرنا پڑے گا کہ معزز جج صاحبان نے ستّرسالہ پرانے نظریۂِ ضرورت‘‘ کو فرسودہ خیال کرتے ہوئے ایک نیا، تازہ دَم اور وسیع المقاصد نظریہ تخلیق کیا ہے جسے ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریہ انصاف کے نگہبانوں کی بالغ نظری اور فکری بلُوغت کی دلیل ہے۔ اس نظریے کی اساس زمانہ قبل از مسیح کے پنچایتی نظام پر رکھی گئی ہے۔ پنچوں کے سامنے آئین کی کوئی کتاب ہوتی ہے نہ قانون کا کوئی کتابچہ۔ کوئی ضابطۂِ فوجداری نہ ضابطۂِ دِیوانی۔ بس چند بڑے بوڑھے کسی گھنے پیڑ کے نیچے چارپائیاں ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حُقے کے کش لیتے، زیرنظر معاملے پر چھلچھلاتی سی نظر ڈالتے اور اپنی صوابدیدپر فیصلہ صادر فرمادیتے ہیں۔ یہ فیصلہ جو بھی ہو، جیسا بھی ہو، سب فریقوں پر واجب ولازم ہوتا ہے۔ کچھ کم فہم سے لوگ اکیسویں صدی کے اس روشن وبیدار عہد میں زمانۂِ قبل از مسیح کے پنچایتی نظام کو ملک وقوم کے لئے نیک شگون خیال نہیں کرتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ آئین وقانون کو بے معنی بنادیاگیا اور ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کے مطابق مہم جویانہ فیصلے صادر ہونے لگے تو ’’مہم جوئی‘‘ کو فروغ ملے گا اور من مانی پر مبنی سہولت کاری کسی ایک ادارے کی میراث نہیں رہے گی۔ لیکن میرے خیال میں ہمارے منصفینِ کرام ہم سے کہیں زیادہ زِیرک، کہیں زیادہ معاملہ فہم اور کہیں زیادہ دُوراندیش ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کا اطلاق کن نیک چلن جماعتوں اور پاکباز شخصیات پر ہوگا۔ ’’نظریۂِ ضرورت‘‘ کن صاحبانِ تیغ وتبر کے لئے بروئے کار آئے گا اور آئین وقانون کے تازیانے کس کی پشت پر برسائے جائیں گے۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ بحث مباحثے سے ہٹ کر، زندہ وتابندہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ قومی اسمبلی سمیت پانچ اسمبلیوں میں نابود سمجھی جانیوالی پی۔ٹی۔آئی ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کی ایک ہی جادوئی پھونک سے، زندہ ہوگئی ہے۔ بقول سینیٹر علی ظفر ’’ہمیں اسکی کوئی امید تھی نہ توقع۔ سپریم کورٹ نے تو ہماری بہت سی غلطیاں بھی درست کردی ہیں۔‘‘ سینیٹر صاحب کو شاید علم نہیں کہ ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کیسے کیسے معجزے رقم کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں رائج نظامِ عدل کی رُو سے فیصلہ دینے کے بعد عدالت کا دروازہ بند ہوجاتا ہے لیکن ’’نظریۂِ سہولت‘‘ کے تحت ’’آفٹر سیل سروس‘‘ کا اہتمام بھی کیاگیا ہے چنانچہ جج صاحبان نے واضح کردیا ہے کہ اگر کسی مرحلے پر پی۔ٹی۔آئی کو فیصلے کے حوالے سے ہماری راہنمائی ، مشکل کُشائی اور سہولت کاری کی ضرورت محسوس ہو تو بخوشی رابطہ کرسکتی ہے۔ اُدھر پی۔ٹی۔آئی سے جُڑے اَرکان پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے پوچھ رہے ہیں۔ ’’ہم کون ہیں؟ کیا ہم آزاد ہیں؟ کیا ہم سُنّی اتحاد کونسل کے رُکن ہیں؟ کیا اَب ہم پی۔ٹی۔آئی میں آگئے ہیں؟ ہم نے تو حلف نامے داخل کرکے سُنّی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اُن حلف ناموں کا کیا بنے گا؟ لہذا بنیادی سوال ہی یہ ہے کہ کیا کوئی آزاد رُکن حلف نامہ دے کر کسی جماعت میں شامل ہوجانے کے بعد اپنا حلف توڑ کر کسی دوسری جماعت میں شامل ہوسکتا ہے؟ کیا اس پر فلور کراسنگ کا قانون عائد نہیں ہو جائے گا۔a

Back to top button