حسینہ واجد کا کہا گیا کون سا لفظ ان کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنا؟

صرف چند ہفتوں میں 300 نشستوں کے ایوان میں 200 نشستیں رکھنے والی بنگلہ دیش کی ایک انتہائی مضبوط حکومت منہ کے بل جا گری اور عوامی غیض و غضب نے ملک کے بانی تصور کیے جانے والے شیخ مجیب الرحمٰن کا مجسمہ تک گرا دیا۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد چوتھی بار وزیر اعظم بنی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا لیکن پھر اچانک ایسا کیا ہوا جس نے اتنے متشدد مظاہروں کوجنم دیا جن میں سینکڑوں لوگ جان سے گئے اور بالآخر وزیراعظم کو ملک چھوڑ کر بھارت میں پناہ لینی پڑی۔مبصرین کے مطابق شیخ حسینہ کے ایک لفظ نے اسے تخت سے بے تخت کردیا،14جولائی کو وزیر اعظم شیخ حسینہ نےاشتعال انگیز تقریرمیں مظاہرین کو’’رضاکار‘‘ کہا تھا،اس لفظ کو بنگالی غداری کے مترادف سمجھتے ہیں، یہ لفظ ان کےلئے استعمال کیا جاتاہے جنہوں نے1971میں پاک فوج کے ساتھ تعاون کیا،حسینہ واجد کی جانب سے مظاہرین کیلئے اس ایک لفظ کے استعمال سے طلباء میں اتنا اشتعال پھیلا جو حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوا۔

تاہم تجزیہ کار ماریہ سلطان کے مطابق جس طرح بنگلہ دیش میں حکومت کا تختہ الٹایا گیا اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں اسٹیبلشمنٹ کا رویہ بہت جارحانہ ہو چکا تھا۔ جس طرح بھارت میں شہریت کے لیے این آر سی قانون لایا گیا اسی طرز پر حسینہ واجد نے مطلق العنان حکمرانی کی خاطر بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے ذریعے ایک خاص مستقل کلاس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو وہاں کے حکمران طبقے پر مشتمل ہو۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے انقلابات ایک دن میں نہیں آتے گو کچھ حکومت مخالف عناصر کام ضرور کرتے ہیں لیکن لوگوں کے اندر غم و غصہ پلتا رہتا ہے جو ایک دن ابل پڑتا ہے۔

ماریہ سلطان کے مطابق حسینہ واجد کی حکومت ایک بہت سخت گیر، متشدد پولیس اسٹیٹ تھی جس کو بھارت کی تائید حاصل تھی اور اس حکومت پر بھارت نواز حکومت ہونے کا تاثر بہت گہرا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر بنگلہ دیش میں یہ متشدد مظاہرے امیر اور مفلوک الحال لوگوں کے درمیان تھےاور ایک ایسے نظام کے خلاف تھے جس میں امرا مستقل امیر ہو رہے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں یہ تبدیلی بھارت کے لیے بھی بہت بڑا سبق ہے کیوں کہ بھارتی معاشرے میں جس طرح بے پناہ حقوق سے مستفید ہونے والی ایک ہندو کلاس پیدا کی جا رہی ہے اس کا اثر کچھ دہائیوں کے بعد سامنے آئے گا جب لوگ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔

دوسری جانب پاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد کے مطابق حسینہ واجد 2 دہائیوں سے حکومت میں تھیں اور وہ ہر طرح سے اپنی من مانی کر رہی تھیں۔ اپوزیشن کے ساتھ ناروا سلوک، معاشی تنزلی، بے روزگاری اور بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے عوامی غیض و غضب قابو سے باہر ہو گیا۔ جس سے نہ صرف حسینہ واجد کے جابرانہ دور اقتدار کا خاتمہ ہوا بلکہ ملکی معاملات ایک بار پھر فوج کے ہاتھ میں چلے گئے۔مسعود خالد کے مطابق بنگلہ دیش میں بھارت نواز حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کو بھارتی حکومت کی شکست سے تو تعبیر نہیں کر سکتے ہاں یہ اس کے لیے ایک جھٹکا ضرور ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد پر بھارت نواز ہونے کی چھاپ بہت گہری تھی اور اس بات کے خلاف بھی لوگوں میں ایک ردعمل تھا لیکن 2 ہفتوں میں اتنے لوگوں کا مرجانا بھی کوئی مذاق نہیں۔انہوں نے کہا کہ جس طرح شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسمے توڑے گئے اس سے معلوم ہوا کہ جو گڑھا حسینہ واجد دوسروں کے لیے کھود رہی تھیں اور خود ہی اس میں گر گئیں۔

تاہم سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد فرار نہیں ہوئیں، انہیں محفوظ راستہ دیا گیا ہے، جو کچھ بنگلہ دیش میں ہورہا ہے اسکی بازگشت اردگرد بھی سنائی دیتی ہے۔  ان کا مزید کہنا تھا کہ بنگلہ دیشی آرمی چیف وقار الزماں کے بارے میں بہت کم لوگوں کو یہ پتہ ہے کہ یہ حسینہ واجد کے رشتے دار ہیں۔ حسینہ واجد کی طرف سے اپنے مرضی کا آرمی چیف لانے کا مقصد یہ تھا کہ اپنے اقتدار کوطول دیا جائے۔لیکن مرضی کا آرمی چیف بھی حسینہ واجد کی حکومت کوبچا نہیں سکا۔ تاہم دیکھنا ہے کہ بنگلہ دیش میں اب کیا ہوگا اور اس کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق حسینہ واجد کو اندرونی طورپر فوج کی سپورٹ تھی اور بیرونی طور پر بھارت اور امریکا کی سپورٹ حاصل تھی۔ ڈاکٹر ہما بقائی کے مطابق بنگلہ دیشی آرمی چیف نے شروع میں حسینہ واجد کی حکومت کو سپورٹ کیا تاہم بعد ازاں عوامی ردعمل دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔ حسینہ واجد کے صاحبزادے نے آرمی چیف سے کہا کہ ان کی حکمرانی جاری رکھیں ۔ جس کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ یہ اب ممکن نہیں ہوگا۔اگر حسینہ واجد کو برطرف نہیں کیا جاتا تو صورتحال بہت تشویشناک ہوجاتی۔

Back to top button