شیخ حسینہ واجد نے اقتدار تو کھودیا لیکن اپنی جان بچالی

 بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ کے استعفے اور آرمی چیف کی جانب سے عبوری حکومت کے اعلان نے ایک بار پھر ملک کی سیاسی ہلچل اور بغاوتوں کی تاریخ پر توجہ مرکوز کر دی ہےمبصرین کے مطابق مستعفی ہو کر انڈیا بھاگ کر بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے خود کو اپنے والد جیسے انجام سے بچا لیا ہے ورنہ 1975 میں بنگلہ دیش میں ہونے والی پہلی فوجی بغاوت کے نتیجے میں ملک کے پہلے وزیر اعظم اور شیخ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمان کو قتل کر دیا گیا تھا۔

مستعفی ہونے والی وزیراعظم حسینہ کے والد، اورملک کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان کو ان کے خاندان کے بیشتر افراد سمیت ایک فوجی بغاوت میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش میں طویل عرصے تک فوجی حکمرانی کا آغاز ہوا۔۔ اسی سال دو اور بغاوتیں نومبر میں جنرل ضیاء الرحمن کے اقتدار پر قبضے کے ساتھ ختم ہوئیں۔

بنگلہ دیش نے جنوری 2010 میں ان پانچ سابق فوجی عہدے داروں کو، جنھوں نے 1975ء میں قوم کے آزادی کے قائد کو قتل کیا تھا، پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔قتل کا مشہور مقدمہ مقتول قائد کی بیٹی شیخ حسینہ کی حکومت میں چلا۔ وہ اس سے ایک سال قبل ملک کی دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئی تھیں۔

1981 میں جنرل ضیاء الرحمن کو باغیوں نے چٹاگانگ شہر میں ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں گھس کر قتل کر دیا جہاں وہ رہائش پذیر تھے۔ خیال کیا جاتاہے کہ یہ تشدد فوجی افسروں کے ایک چھوٹے سے گروپ کی کارروائی تھی، لیکن فوج خود وفادار رہی اور بغاوت کو کچل دیا۔

1982 میں جنرل ضیاء الرحمن کے جانشین عبدالستار کو حسین محمد ارشاد کی سربراہی میں ایک خونریز فوجی انقلاب میں معزول کر دیا گیا، جنہوں نے پہلےچیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ اور بعد میں صدر کا عہدہ سنبھالا۔عوامی احتجاج اور ہنگاموں کے بعد جنرل حسین محمد ارشاد کو انیس سو اکانوے میں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔

بعد ازاں 2007 میں آرمی چیف نے فوجی بغاوت کے بعدایک نگراں حکومت کی حمایت کی جس نے اگلے دو سال تک ملک پر حکمرانی کی جس کے بعد شیخ حسینہ واجد نے 2009 میں اقتدار سنبھالا۔

2009 میں ہی اپنی اجرتوں اور دیگرحالات سے برہم، بنگلہ دیش رائفلز کے سرحدی محافظوں نے دارالحکومت ڈھاکہ میں 74 سے زیادہ افراد کو ہلاک کر دیا، جن میں زیادہ تر فوجی افسرتھے۔بغاوت کے دوران سرحدی محافظوں نے ڈھاکہ میں اپنی مرکزی بارکوں پر قبضہ کرلیا تھا اور بغاوت مختلف چوکیوں تک پھیل گئى تھی۔استغاثہ کا کہنا ہے کہ بغاوت کم تنخواہوں اور ناروا سلوک پر احتجاج کے طور پر شروع ہوئى تھی۔ یہ چھ دن کے بعد ختم ہو گئی تھی اور ناراض محافظوں نے سلسلہ وار بات چیت کے بعد ہتھیار ڈال دیے۔ جس کے بعد ہلاکتوں میں ملوث افراد کو سخت سزائیں دی گئیں۔

2012 میں بنگلہ دیش کی فوج نے کہاتھا کہ اس نے ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران کی بغاوت کی ایک کوشش کو ناکام بنا دیا ہے جو پورے ملک میں شریعت یا اسلامی قانون متعارف کرانے کی مہم کے ذریعے چلائی گئی تھی۔

تاہم اب 5 اگست کو فوج کی جانب سے 45 منٹ کی ڈیڈ لائن کے بعد شیخ حسینہ واجد استعفی دے اپنی جان بچانے کیلئے بھارت بھاگ گئی ہیں۔شیخ حسینہ کا استعفی ایسے وقت میں آیا ہے جب حکومت کے خلاف طلبہ کی احتجاجی تحریک شدت اختیار کر چکی تھی۔احتجاجی تحریک کا آغاز جولائی میں سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف ہوا تھا۔ لیکن چند ہفتوں میں وزیرِ اعظم کا استعفی اس تحریک کا واحد مطالبہ بن گیا۔بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والے طلبہ کے حالیہ مظاہروں کو شیخ حسینہ کے گزشتہ 15 برس سے جاری دورِ اقتدار کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا تھا۔

تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کا استعفی اگرچہ طلبہ کے حالیہ احتجاج کا نتیجہ ہے۔ لیکن جنوری 2024 میں الیکشن کے بعد ہی سے بنگلہ دیش کا سیاسی درجہ حرارت عروج پر تھا۔ان انتخابات سے قبل بڑے پیمانے پر حزبِ مخالف کی بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کی انتخابی مہم کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی گئی تھیں۔عالمی مبصرین اور اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن پراسس کی شفافیت پر بھی کئی سوالات اٹھائے تھے۔ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی نتائج پر بھی سنگین تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ حالیہ احتجاجی لہر نے بنگلہ دیش کے نظام حکومت اور معیشت میں کرونا وبا، یوکرین اور غزہ میں جاری جنگ سے پڑنے والی دراڑوں کو مزید واضح کیا ہے۔ ساتھ ہی ان مظاہروں سے عیاں ہوا کہ ملک میں نوجوان گریجویٹس کے لیے معیاری ملازمتوں کی کمی ہے۔بے روزگاری کے ساتھ ساتھ سرکاری بھرتیوں میں بڑے پیمانے پر بے لگام کرپشن اور بے ضابطگیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔تجزیہ کاروں کے نزدیک انتخابی نتائج پر پائی جانے والی بے چینی اور طلبہ کے احتجاج نے وہ حالات پیدا کیے جس کے باعث شیخ حسینہ مسلسل چوتھی بار بھی ملک کی وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد اپنا اقتدار برقرار نہیں رکھ سکیں۔

Back to top button