استعفے کے باوجود شیخ حسینہ واجد کا کھیل ختم کیوں نہیں ہوا؟

اگرچہ 20 برس سے ذیادہ عرصے تک بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہنے والی شیخ حسینہ عوامی رد عمل کے بعد ہونے والی فوجی بغاوت کے نتیجے میں ملک چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی مستقبل میں وطن واپسی اور دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوامی لیگ بھی جماعت اسلامی کی طرح ایک ملک گیر سطح پر منظم ترین جماعت ہے جس کے لاکھوں کارکنان پورے ملک میں پھیلیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس وقت عوامی جذبات شیخ حسینہ واجد کے خلاف بھڑکے ہوئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی ہیں جو کہ بنگلہ دیش کے بانی تھے، ویسے بھی حسینہ کی مخالف سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بی این پی اور اس کی سربراہ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی ماضی کی حکومتی کارکردگی ایسی نہیں تھی کہ وہ موجودہ سیاسی بحران میں کوئی بڑا کردار ادا کر پائیں۔ بنگلہ دیش میں بغاوت کے بعد کرپشن الزامات پر 16 برس قید کی سزا کاٹنے والی خالدہ ضیا کو رہائی تو مل گئی ہے، لیکن ابھی یہ طے نہیں ہے کہ اگلی عبوری حکومت میں فوج کا کردار زیادہ ہوگا یا سویلینز کا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کو اقتدار سے نکالنے کے بعد ان کی جماعت کو عوامی رد عمل کے پیش نظر فوجی قیادت اقتدار میں نہیں آنے دے گی، اس لیے زیادہ امکان یہ ہے کہ خالدہ ضیا کو اگلی حکومت دینے کی کوشش کی جائے لیکن ایسا الیکشن کے بغیر ممکن نہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر الیکشن ہوا تو عوامی لیگ کا ملک بھر میں پھیلا ہوا تنظیمی نیٹ ورک گھر بیٹھ کر تماشہ نہیں دیکھے گا اور پچھلے الیکشن میں 300 میں سے 200 نشستیں جتنے والی یہ جماعت کوئی بڑا سرپرائز دے سکتی ہے۔ لیکن اگر پھر بھی خالدہ ضیا کی بی این پی کو اقتدار مل جاتا ہے تو ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی انکی جماعت سے کسی اچھی کارکردگی کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔ لہازا مستقبل میں حسینہ واجد اور ان کی عوامی لیگ کی واپسی کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

حسینہ واجد کا کہا گیا کون سا لفظ ان کے اقتدار کے خاتمے کی وجہ بنا؟

یاد رہے کہ 5 اگست 2024 کو بنگلہ دیش میں تقریباً 300 حکومت مخالف مظاہرین کی ہلاکت اور وسیع پیمانے پر عوامی مزاحمت کے بعد وزیر ا‏عظم شیخ حسینہ کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ملک سے فرار ہونا پڑا تھا۔ وہ ڈھاکہ سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا کے شہر اگرتلہ پہنچیں اور پھر ایک فوجی طیارے کے ذریعے دلی کے نواح میں انڈین فضائیہ کے ہینڈن فضائی اڈے پر اتریں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ انڈیا میں مستقل طور پر قیام کریں گی یا کچھ دنوں کے بعد کسی اور ملک چلی جائیں گی۔

بعض خبروں کے مطابق ڈھاکہ کی انتہائی کشیدہ اور مشتعل صورتحال کے پیش نظر انھوں نے برطانیہ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ تاہم بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے پیش نظر انڈین اسٹیبلشمنٹ یہی چاہے گی کہ وہ کسی اور ملک میں پناہ لے لیں۔ دوسری جانب شیخ حسینہ واجد کے سسرالی رشتہ دار اور بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزماں سبھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک عبوری حکومت قائم کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کی جانب سے شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کو انڈیا کے لیے ایک بڑا جھٹکا قرار دیا جا رہا ہے چونکہ انڈیا عوامی لیگ کا سب سے قریبی اتحادی تھا اور 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد سے حسینہ کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ تازہ فوجی بغاوت کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں ورنہ 1975 کی فوجی بغاوت کے دوران ان کے والد شیخ مجیب الرحمن اور خاندان کے دیگر افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ شیخ حسینہ واجد اور ان کی چھوٹی بہن اپنے خاندان کے قتل کے وقت اس لیے بچ گئیں کہ وہ لندن میں تھیں۔ کچھ عرصہ بعد وہ وہ دلی آئیں اور وہاں کئی برس مقیم رہیں جس کے بعد انہوں نے بنگلہ دیشی واپسی کی اور بالاخر وزیراعظم بنیں۔

خیال رہے کہ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کے وقت شیخ حسینہ کے شوہر ڈاکٹر واجد میاں بطور سائنسدان پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا حصہ تھے اور کراچی نیوکلیئر پلانٹ کے چیف سائنسدان بھی تھے۔ شيخ حسینہ تقریباً 21 برس بنگلہ دیش کی وزیر اعظم  رہیں۔ وہ گذشتہ 16 برس سے مسلسل وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھیں۔ مودی حکومت کے قیام کے بعد انھوں نے انڈیا سے پانی کی تقسیم کا سمجھوتہ کیا، نئے نئے تجارتی راستے کھولے، بنگلہ انکلیو کے تبادلے اور امن معاہدہ کیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شیخ حسینہ کے دور اقتدار میں بنگلہ دیش نے مسلسل ترقی کی۔

بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ سے پہلے ’بی این پی کی خالدہ ضیا کی حکومت کے درمیان بنگلہ دیش میں انتہا پسند طاقتوں کو شہ ملی اور وہاں کئی تنظیمیں تشدد پر اتر آئیں۔ اںڈیا بھی ان انتہا پسندوں کی پرتشدد کاروائیوں کی زد میں آیا اور انڈیا کے تعلقات خالدہ ضیا کی حکومت سے خراب ہوتے گئے۔ لیکن شیخ حسینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ملکوں کے رشتے بہت گہرے ہوئے۔ انکے مطابق یہ شیخ حسینہ کی خارجہ پالیسی کی کامیابی تھی کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ دوستی رکھی جس سے ان کے ملک نے بھی ترقی کی۔ اسی لیے انڈیا مخالف پاکستانی تجزیہ کار شیخ حسینہ کو بھارت نواز قرار دیتے ہیں۔ انکے مطابق چونکہ انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے بڑا حمایتی تھا اسی لیے وہاں کی عوام انڈیا سے بھی اتنی ہی نفرت کرنے لگی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی نہیں بلکہ انڈیا امریکہ، برطانیہ اور پوری دنیا کو یہ باور کرواتا رہا ہے کہ اگر عوامی لیگ ہار گئی تو بنگلہ دیش انتہا پسندوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔ انڈیا کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت سے عوامی نفرت اس حد تک پہنچ جائے گی کہ انھیں اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑ سکتا ہے۔ لہازا یہ انڈیا کے لیے ویسا ہی بڑا دھچکا ہے جیسا امریکیوں کے لیے افغانستان ثابت ہوا۔

بنگلہ دیش میں اب ایک عبوری حکومت کے قیام کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ عوام کی شدید محالفت کے سبب عوامی لیگ کو اس نئی حکومت میں شامل کیا جائے یا نہیں، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

Back to top button