بنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں انقلاب لانا ممکن کیوں نہیں ہے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے زوال کے بعد پاکستان میں جو لوگ اس غلط یا خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ جلد ہی یہاں بھی انقلاب آنے والا ہے اور حکمرانوں اشرافیہ بشمول جرنیلوں کو اقتدار چھوڑ کر بھاگنا پڑ جائے گا، وہ غلطی پر ہیں اور انکے دعوے اور اندازے منطق سے کوسوں دور ہیں۔

عمران اور شیخ حسینہ کے بیٹے نے پاکستان کا موازنہ کس ملک سے کیا ؟

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ دنیا تضادات کا مجموعہ ہے۔ ہر ملک کے اپنے تضادات ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں کا بنگلہ دیش اور ہے اور وہاں بسنے والے بنگالیوں کا بنگلہ دیش بالکل مختلف ہے۔ جیسے ہم پاکستانیوں کیلئے افغانستان کا تاثر بالکل مختلف ہے اور وہاں بسنے والے افغانیوں کا اپنے بارے میں تاثر بالکل ہی الگ ہے۔ افغانستان کیلئے ہم نے اپنے تئیں بہت کچھ کیا، دو جنگیں بھی لڑیں، مگر کیا افغانی ہمارے احسان مند ہیں؟ بالکل نہیں، گویا ہماری توقعات اور تجزیے غلط ثابت ہوئے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اسی طرح حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش میں جو تبدیلیاں آئی ہیں انکے بارے ہماری تضادبیانیاں بہت ہی دلچسپ، متضاد اور قطعی جانبدارانہ ہیں۔

بنگلہ دیش میں ایک غیر منتخب ٹیکنوکریٹ حکومت اقتدار میں آ چکی ہے جسے فوج اور طلبا کی حمایت حاصل ہے۔ فوج پہلے جس حکومت کو سپورٹ کر رہی تھی اب اس کو نکلوا چکی ہے۔ حسینہ واجد بھارت جا چکی ہیں اور بنگلہ دیش ابھی تک مظاہرین کے کنٹرول میں ہے۔ اس حقیقت کو دیکھنے کے اپنے اپنے رنگ ہیں۔ جماعت اسلامی کے حامی خوش ہیں کہ جماعت کے لیڈروں کو پھانسیاں دینے والی حسینہ واجد سیاسی انجام کو پہنچ چکی ہیں۔ پاکستانی عمومی طور پر خوش ہیں کہ بھارت کی حامی حسینہ واجد فارغ ہو گئیں اور اب جو بھی آئے گا وہ پرو پاکستان ہو گا، کئی خوش فہم تو اس حد تک چلے گئے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کو فوراً کنفیڈریشن بنانے کی تجویز دے دی، فوج اور اسکے حامیوں کا موقف یے کہ وہ جو کہتے تھے کہ دو قومی نظریہ دفن ہو گیا، انہیں بنگلہ دیش کے عوامی انقلاب کے بعد اب منہ چھپانے کو جگہ نہیں مل رہی۔ عمران خان کے فالوور کل تک اپنے لیڈر کو آج کا شیخ مجیب قرار دیتے ہوئے فوج کو ظالم کہہ رہے تھے لیکن انکی سیاسی وارث شیخ حسینہ اقتدار چھوڑ کر بھاگیں تو انصافیے یوٹرن لیکر اب یک لخت اپنا تقابل طلبا رہنماؤں سے کرنے لگے ہیں۔ پی ٹی آئی کے یوتھیے اب اپنی تحریک کو ڈھاکہ کی طلبا تحریک کے مماثل قرار دیکر یہ پیش گوئیاں کر رہے ہیں کہ دو ماہ میں پاکستان بھی بنگلہ دیش بننے والا ہے اور یہاں کے حکمرانوں اور جرنیلوں کو حسینہ واجد کی طرح ملک سے بھاگنا پڑے گا۔

سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ افسوس یہ ہے کہ تضادستانیوں کی بنگلہ دیش کے حوالے سے یہ ساری کی ساری تشریحات صریحاً غلط ہیں اور ان کی بنیاد غیر جانبدارانہ اور منطقی تجزیے نہیں بلکہ ہمارے اپنے اپنے فکری میلانات ہیں۔ تلخ حقائق جن سے ہم آنکھیں چراتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ آج سے 53 سال پہلے بنگلہ دیش ایک آزاد اور خود مختار ملک بن چکا ہے، جس نے اپنے قیام کے بعد اپنی آبادی پر پاکستان سے بہتر کنٹرول کیا ہے اور اپنی معیشت کو ہم سے کہیں بہتر کر لیا ہے، سیاست میں البتہ وہ بھی ہمارے جیسے ہی نکلے۔ جمہوریت میں فاشزم کی آمیزش ہہاں بھی ہے اور وہاں بھی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بڑی خونیں تھی اور اس سے نہ ہمارے پاکستانیوں کی اور نہ ہی بنگالیوں کی کوئی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ جنرل ایوب خان سرعام کہا کرتے تھے کہ مغربی پاکستان کی ترقی میں بنگالی رکاوٹ ہیں، ہم نے انکے اکثریت میں ہونے کے باوجود مشرقی پاکستان کے بنگالیوں سے برابری کا اصول منوایا اور جب آخر کار انہیں 1970ء میں ان کی آبادی کے مطابق نشستوں کا حق ملا تو ہم   نے انہیں اقتدار دینے سے انکار کر دیا۔ بنگالی احساس محرومی سے بڑھ کر مظلومیت کو چھونے لگے تھے لیکن ہم انہیں بھائی بنانے کی بجائے غلام رکھنے پر مصر تھے۔انکے ساتھ تشدد، اغوا، قتل، عصمت دری اور فسادات تک، کیا کیا نہیں ہوا۔ انسانی خون پانی سے نہیں دُھلتا اور اگر دُھل بھی جائے تو اس کے زخم دلوں پر تادیر قائم رہتے ہیں۔ اس لئے ہم پاکستانیوں کو نتائج تک پہنچنے میں اتنی جلدی نہیں کرنی چاہئے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ ہمیں ابھی دیکھنا ہے اور تب ہی کعئی نتائج اخذ کرنا درست ہو گا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ابھی تو ہمیں افغانستان میں لگنے والے زخم بھی تازہ ہیں اور ان سے گاہے گاہے خون رِستا رہتا ہے، ہم نے پھولوں کی تمنا کی تھی وہاں سے پتھر برسائے جا رہے ہیں۔ کہیں تو ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں کہ افغانستان کیلئے اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود نتائج ہمارے حق میں نہیں بلکہ ہمارے خلاف نکلے ہیں، ہمیں سوچنا ہے کہ ہم نے کونسی ایسی فصل کاشت کی تھی جس کا پھل زہر آلود ہے۔ جنرل فیض حمید نے امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا پر مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اب سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ وزیر اعظم عمران خان نے رب فرمایا تھا کہ ’’غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئی ہیں‘‘۔ لیکن کیا واقعی سب کچھ ٹھیک ہو گیا؟ اور کیا امریکی غلامی کی زنجیریں تڑوانے والوں نے اقتدار میں آ کر افغانستان سے پاکستان پر حملوں کا آغاز نہیں کر دیا؟ لہازا آئیے مان لیں کہ ہمارے اندازے غلط نکلے کیونکہ ہمارے فیصلے جوش کے تھے ہوش کے نہیں تھے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں جب پاکستان میں بنگلہ دیشی ہائبرڈ ماڈل لانے کی بات کی گئی تو میں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا کیونکہ یہاں کی فوج، خارجہ، داخلہ اور سیاسی امور میں اس قدر کنٹول میں ہے کہ سیاسی حکومت لاچار اور بے بس ہو جاتی ہے، بدقسمتی سے اب وہی نتیجہ نکل رہا ہے کہ حکومت نہ تو بااختیار ہے اوت نہ اسے بنگلہ دیش کی طرح عدلیہ اور فوج کی حمایت حاصل ہے۔ وہاں تو فوج نے مظاہرین کا حتمی طور پر ساتھ دیا ورنہ تبدیلی مشکل تھی۔ ہمیں دنیا کے ماڈل اپنانے کی بجائے پاکستانی آئین کو ماڈل بنانا چاہئے۔ فوج کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ جو بھی سیاسی حکومت ہو اسے بااختیار ہونا چاہئے۔ عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنا چاہئے، اگر ایسا نہ ہوا تو بھی ضروری نہیں کہ ہم بنگلہ دیش بن جائیں، اندیشہ تو یہ ہے کہ ہم اُس سے بھی بڑے اور خونیں بحران کا شکار ہو جائیں گے۔ تبدیلی ہمیشہ پرامن اور ارتقائی ہو تو بہتر ہوتی ہے، اس لیے تشدد سے خونیں انقلاب لانے کی سوچ چھوڑ کر ہمیں دنیا سے سیکھنا چاہئے، آج بھی ہمیں بغاوت کے ذریعے انقلاب لانے کی نہیں بلکہ صرف اور صرف جمہوری جدوجہد سے تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Back to top button