فیض حمید نے کن سیاستدانوں اور صحافیوں کو قتل کرانے کی سازش کی؟

سینئر تجزیہ کار حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے نہ صرف 9 مئی کے واقعات کی پلاننگ میں کردار ادا کیا بلکہ سیاسی شخصیات اور صحافیوں کو قتل کرانے کی بھی کوشش کی، فیض حمید نے تحقیقات سے بچنے کیلئے اثر و رسوخ کا استعمال بھی کیا اور وزیراعظم سے بھی ملنے کی کوشش کی لیکن شہباز شریف نے انکار کردیا.

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز پر سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو فوجی تحویل میں لئے جانے نے آئی ایس پی آر کی جانب سے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کیا۔ سینئر تجزیہ کار حامد میر نے مزید کہا کہ فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ رہے ہیں، ان کے پاکستان کی سیاسی اشرافیہ میں کافی تعلقات تھے، وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے تحقیقات سے بچنے کی کوشش کرتے رہے حامد میر کے مطابق جنرل فیض حمید نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی سر توڑ کوشش کی، ان کو پیغامات بھجوائے بلکہ شہباز شریف صاحب کی کابینہ میں شامل کچھ لوگوں نے بھی جنرل فیض کی سفارش کی کہ شہباز شریف ان سے ملاقات کر لیں، لیکن شہباز شریف  نے جنرل فیض کے ساتھ کسی بھی قسم کا رابطہ کرنے اور ان سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔

حامد میر نے کہا اس کے بعد حال ہی میں کچھ انویسٹی گیشنز ہوئیں، جنرل فیض کے بارے میں یہ افواہیں پھیلائی جاتی تھیں کہ وہ بڑی پابندیوں کا شکار ہیں وہ کسٹڈی میں ہیں یا ہاؤس اریسٹ ہیں، ایسی کوئی بات نہیں تھی وہ بالکل آزاد تھے تاہم ان کی آزادی ان کی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی کیونکہ ان کے رابطوں کو مانیٹر کیا جارہا تھا، اس دوران یہ بھی پتا چلا کہ جنرل فیض حمید کا 9 مئی 2023 کے واقعات کی پلاننگ میں کردار تھا، بغاوت کی جو کوشش تھی اس میں بھی ان کے مشورے شامل تھے۔

حامد میر نےکہا کہ پچھلے سال فیض حمید کے حوالے سے کچھ شواہد ملے کہ جب وہ ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو انہوں نے کچھ سیاسی شخصیات اور صحافیوں کو قتل کرانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں باقاعدہ کچھ ثبوت بھی حاصل کئے گئے ہیں۔حامد میر نے کہا کہ حکومت کو تھوڑے دن پہلے ہی جنرل فیض حمید کے بارے میں پتا چلا کہ وہ ابھی بھی پاکستان تحریک انصاف کے کچھ رہنماؤں کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کو ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے اپنی پارٹی قیادت کو شکایت بھی کی کہ جنرل فیض ہم سے رابطہ کرکے ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کیا کریں، جس پر انہیں کہا گیا کہ آپ کو ان کی بات سننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ بات حکومت تک پہنچ گئی اور اس پر وزیراعظم شہباز شریف نے تحقیقات کا حکم دیا۔

سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہونے اور ان کو فوجی تحویل میں لیے جانے کی خبر سامنے آنے کے بعد سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میرنے اہم واقعات سے پردہ اٹھاتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کا کہنا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید کے خلاف بہت سے انکوائریز چل رہی تھیں لیکن ٹاپ سٹی کا معاملہ بہت ہائی لائٹ ہوا۔
تاہم پچھلے سال ان کے بارے میں کچھ شواہد ایسے بھی ملے کہ انہوں نے کچھ سیاسی شخصیات اور صحافیوں کو قتل کرانے کی کوشش کی تھی ۔فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کے علاوہ تین اور معاملات میں بھی تحقیقات ہورہی ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے یا نہیں۔

دوسری جانب سینئر صحافی شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر مالی بدعنوانی، بزنس مین کو اغواء کرنے، جمہوریت کو کچلنے اور عدالتوں کو مینج کرنے کا الزام ہے، عدالتوں نے فیض حمید کا معاملہ فوج پر چھوڑا تھا کہ وہ کیا کارروائی کرتے فوج نے معاملہ ٹیک اپ بھی کیا لیکن کارروائی میں تاخیر پر سوال اٹھ رہے تھے، تاہم اب وہ گرفت میں آ چکے ہیں۔

تاہم سینئر صحافی انصار عباسی کے  مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید ریٹائرمنٹ کے بعد فوج کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاسی روابط میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ وہ ایسا نہ کریں لیکن جنرل فیض نے اس انتباہ پر دھیان نہ دیا، اور یہی بات ان کیخلاف کارروائی کا سبب بنی۔

انصار عباسی کے مطابق پیر کو جاری ہونے والی آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ اسلام آباد کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے مالک کے الزامات سے متعلق انکوائری سے جڑا تھا۔ پریس ریلیز کے دوسرے حصے میں تفصیلات بتائے بغیر کہا گیا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور جنرل (ر) فیض حمید کو فوج نے تحویل میں لے لیا ہے۔ پریس ریلیز میں متعلقہ تفصیلات نہ ہونے کی وجہ سے جنرل (ر) فیض کی جانب سے ’’خلاف ورزی کے متعدد واقعات‘‘ کے متعلق قیاس آرائیاں پیدا ہوئیں۔انصار عباسی کے مطابق ایک ذریعے سے جب یہ پوچھا گیا کہ آیا ان واقعات میں جنرل فیض کا 9؍ مئی کے حملوں یا اس کی منصوبہ بندی کے حوالے سے کوئی بات شامل ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ اب تک ایسے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں لیکن ان کی گرفتاری کے دوران تفتیش میں اگر کوئی چیز نکل آئے تو اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

Back to top button