جنرل باجوہ نے عمران دور میں مارشل لاء لگانے کی دھمکی کب اور کیوں دی؟

سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کے اعلان کے بعد یہ افواہیں گرم تھیں کہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے وزیر دفاع خواجہ آصف کو جنرل باجوہ کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے منع کیے جانے کے بعد واضح ہو گیا یے کہ باجوہ کی گرفتاری کے امکانات ابھی معدوم ہیں اور اس وقت فوج کا فوکس فیض حمید کے احتساب پر ہی ہے۔ اس سے پہلے خواجہ آصف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسکے برعکس اشارے دیے تھے اور کہا تھا کہ جنرل باجوہ بھی جنرل فیض سے کم نہیں تھے اور انہوں نے ملک میں مارشل لگانے کی دھمکی دی تھی۔ باجوہ نے یہ دھمکی اپوزیشن اتحاد کی قیادت کو تب دی تھی جب انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا، جنرل باجوہ نے یہ تحریک عدم اعتماد رکوانے کے عوض عمران خان سے ایک اور ایکسٹینشن کا مطالبہ کیا تھا، لیکن نہ تو تحریک عدم اعتماد رک سکی اور نہ ہی باجوہ کو ایکسٹینشن مل سکی۔

فیض حمید کے خلاف اور کن الزامات پر کیسز بنائے جا رہے ہیں  ؟

سینیئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق شہباز شریف کی حکومت سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پر وزیر دفاع خواجہ آصف کی تنقید کی وجہ سے بے چین نظر آئی ہے۔ ایک اہم وفاقی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ وزیر دفاع نے جو کچھ کہا وہ نہبتو شہباز حکومت کی پالیسی ہے اور نہ ہی نون لیگ کی۔ انہوں نے کہا کہ فی الوقت حکومت کی توجہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے احتساب پر مرکوز ہے جنہیں فوجی حکام نے گرفتار کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل باجوہ پر تنقید کی پالیسی شہباز حکومت کی نہیں اور اس حوالے سے خواجہ آصف نے جو بھی کہہ رہے ہیں وہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ ابھی توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ جنرل فیض حمید نے اپنی سروس کے دوران اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد فوج میں نفاق ڈالنے لے لیے کیا کچھ کیا اور وہ کیسے آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ رابطوں میں رہے۔ یاد رہے کہ بطور وزیر اعظم عمران خان تب کے آرمی چیف جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل فیض حمید کو اگلا ارمی چیف بنانا چاہتے تھے لیکن جنرل عاصم منیر کی تقرری سے ان کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ اس کے باوجود جنرل فیض نے جنرل عاصم کے خلاف سازش جاری رکھی اور بالاخر کوٹ مارشل کے لیے گرفتار ہو گئے۔

جب ایک اہم حکومتی وزیر سے پوچھا گیا کہ کیا خواجہ آصف کو وزیر اعظم شہباز شریف یا نون لیگ کے سربراہ نواز شریف نے جنرل قمر باجوہ کے خلاف گفتگو کرنے سے روکا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو پتہ نہیں کہ دونوں میں سے کس نے روکا ہے لیکن یہ درست یے پہ وزیر دفاع کو باجوہ بارے خاموش رہنے کی درخواست کی گئی ہے۔ یاد ریے کہ خواجہ آصف گزشتہ چند روز سے ٹی وی ٹاک شوز میں الزام عائد کرتے نظر آئے ہیں کہ جنرل باجوہ نے مارشل لاء لگانے کی دھمکی دی تھی کیونکہ وہ نومبر 2022 میں اپنی مدت ملازمت میں دوسری توسیع چاہتے تھے۔

تاہم، ماضی میں جنرل باجوہ کے قریب خیال کیے جانے والے مسل لیگی رہنما اور پنجاب اسمبلی کے سپیکر ملک احمد خان نے باجوہ کی توسیع کے منصوبے بارے خواجہ اصف تردید کے دعوے کی تردید کی اور کہا کہ جنرل قمر باجوہ نے توسیع نہیں مانگی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کچھ باتیں خواجہ آصف کے ذہن سے نکل گئی ہوں۔

بعد ازاں ایک ٹاک شو میں خواجہ آصف نے ملک احمد کو جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہا کہ ان کی یادداشت اچھی بھلی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ میں مستقبل کی پیشگوئی نہیں کر سکتا لیکن ماضی کے حوالے سے میری یادداشت بہت اچھی اور محفوظ ہے۔ وزیر دفاع نے زور دے کر کہا کہ جنرل باجوہ نے ایک نشست میں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ملک میں مارشل لا لگا دیں گے۔‘‘ خواجہ آصف کے اس بیان کے بعد، ملک احمد خان نے ایک ٹاک شو میں دوبارہ اصرار کیا کہ جنرل باجوہ نے کئی مواقع پر اسی موقف کو دہرایا تھا کہ وہ توسیع نہیں چاہتے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جنرل باجوہ نے اپوزیشن اتحاد کی جانب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد رکوانے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی وہ موقع تھا جب انہوں نے ملک میں مارشل لا لگانے کی دھمکی تھی اور اس کے عوض وزیراعظم عمران خان سے ایکسٹینشن کا مطالبہ کیا تھا، لیکن نہ تو وہ اپوزیشن اتحاد کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے سے روک سکے اور نہ ہی ایکسٹینشن لے سکے۔

Back to top button