عمران، فیض اور ثاقب نثار جیسے فرعون بچ کیوں نہیں پائیں گے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار عمار مسعود نے کہا ہے کہ کورٹ مارشل کا شکار ہونے والے وقت کے فرعون سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے بعد عمران خان اور ثاقب نثار جیسے فرعونوں کا برا وقت آنا بھی لازمی ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ قدرت کے شکنجے سے بچ کر نکل جائیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عمار مسعود کہتے ہیں کہ وقت کے فیصلے بہت اٹل ہوتے ہیں۔ ان سے فرار ممکن نہیں۔ لکھ دیا گیا ہے کہ کسی ظالم کی حکمرانی کو دوام نہیں۔ کہہ دیا گیا ہے  کسی جابر حاکم کی حکومت لازوال نہیں۔ بتا دیا گیا ہے کہ ہر ظالم کے ظلم کی حد متعین ہے۔ اس امتحان گاہ میں سب کا حساب ہونا ہے۔ ہر فاسق، جابر، ظالم نے رونا ہے۔ جنرل فیض حمید، عمران خان اور ثاقب نثار نے سوچا یہ جہان ہمارے قدموں میں ہے۔ ہم وقت کے حاکم ہیں۔ سارا زمانہ ہمارا دست نگر ہے۔ ہم جو حکم دیں گے تعمیل ہو گی۔ ہم جو چاہیں گے کر پائیں گے۔ پانچ سال کی حکومت تو بہت کم ہے، ہم اس ملک کی کاٹھی پر بیس سال سوار رہیں گے۔ اس کے عوام ہمارے مطیع ہوں گے۔ اس کے سیاستدان ہمارے درِ دولت کے سامنے سوالی بن کر آئیں گے۔ اس ملک کے باقی سب ادارے ہمارے ماتحتوں سے بھی بدتر ہوں گے۔ ہمارے نام کا سکہ اس ملک میں چلے گا۔ ہماری شان میں قصیدے ہر سمت گونجیں گے۔ نہ کسی میں آواز اٹھانے کی ہمت ہو گی نہ کسی میں ہمارے فرمان سے بغاوت کی جرات ہو گی۔ ہم مطلق العنان ہوں گے۔ فیصلہ کن صرف ہم ہوں گے۔  عدل کا میزان بھی ہمارا ہو گا۔ پولیس کا نگہبان بھی ہمارا ہو گا۔ افسران بھی ہمارے قصیدے پڑھیں گے۔ اس ملک پر صرف انہی تین لوگوں کی حکومت ہو گی۔

عمران اور فیض حمید نامی فوجی اثاثے فوج کا بوجھ کیسے بنے؟

لیکن عمار مسعود کہتے ہیں کہ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور بساط ہی الٹ گئی۔ جو لازم تھے وہ معدوم ہو گئے۔ جو محروم تھے  وہ اہم ہو گئے۔ جو جال بچھایا خود اسی دام میں آگئے۔ جو چال چلی اسی کا شکار ہو گئے۔ لیکن یہ سب آناً فاناً نہیں ہوا۔ اس میں کئی برس گزرے، کئی زندگیاں ٹھکانے لگیں، کئی گھرانے اجڑے، تب جا کر حالات بدلے۔ لیکن جو کچھ ہوا وہ نہ کسی کی قربانی کا ثمر تھا نہ کسی کی جدوجہد کا پھل۔ یہ وقت کا فیصلہ تھا۔ سوچیں تو سہی ظالموں کی تکون کو کون سے خواب آ رہے ہوں گے۔ وہ تو سوچتے ہوں گے اب اس ملک پر ہمارا قبضہ ہونے والا ہے۔ اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں ہے۔ اب فوج بھی ہماری، عدلیہ بھی ہماری اور حکومت بھی ہماری۔ ہم فیصلہ کریں گے کہ انصاف کس کو دینا ہے اور کس سے انصاف کی سبیل چھپانی ہے۔ کس کو ادارے میں ترقی دینی ہے اور کس کو جبری ریٹائر کرنا ہے۔ کس بات پر اسمبلی کا اجلاس بلانا ہے، کس بات پر اسمبلی نے پردہ پوش ہونا ہے۔ کون سی قرارداد پیش کرنی ہے، کون سے چھپا لینی ہے۔ کس اجلاس میں کتنے ممبران بہم پہنچانے ہیں اور کب کورم کی گھنٹیاں بجا دینی ہیں۔ کب آئی ایم ایف سے مزید قرضہ مانگنا ہے اور کب اسی معاہدے کی دھجیاں اڑا دینی ہیں۔ کب لوگوں کو بھیک دینی ہے اور کب سوالیوں کے لیے درِ سخاوت کو مقفل کر لینا ہے۔ انہوں نے سوچا ہو گا یہ سب فیصلے ان کی دسترس میں ہوں گے اور ان کی حکومت ایسے آئے گی کہ جسے دوام حاصل ہو گا، اس کی راہ میں حائل ہونے کے لیے کوئی بھی نہیں بچے گا۔

عمار مسرود کے مطابق اس زعم میں اس خونی تکون نے عوام کے منشا کو پاؤں تلے روند دیا۔ د و ہزار اٹھارہ میں وہ کیا جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ سارا نظام اپنے مفادات کے لیے الٹ دیا۔ نہ ووٹ کی عزت کی نہ آئین کا احترام کیا۔ نہ قائدین کی حرمت کا لحاظ رکھا اور  نہ ہی جمہوریت کا پاس رکھا۔ نہ پارلیمان کی توقیر کی نہ عوام کی خواہشات کا خیال کیا۔ ظلم کے ان سوداگروں نے وہ سب کچھ ڈنکے کی چوٹ پر کیا جو ان کے من میں آیا۔ جس کو کچل سکتے تھے اس کو کچل دیا جس کو نگل سکتے تھے، اس کو نگل لیا۔ طاقت کے اسی زعم میں قاضی کے خلاف بھی فتوے دیے، اس کے اہل خانہ کو دفتروں میں گھسیٹا، اس کو بدنام کیا، اس کی عزت کو تار تار کرنے کے لیے تن من دھن لگادیا۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ اپنے وقت کے فرعونوں نے طاقت کے نشے میں بد مست ہو کر سوچا کہ عدل بھی ہمارا ہو گا اور انصاف پر بھی ہمارا قبضہ ہو گا۔ فیصلے بھی ہماری مشاورت سے ہوں گے اور کیس بھی ہم سے پوچھ کر داخل دفتر ہوں گے۔

وقت کے ان تین فرعونوں نے سوچا کہ ہر مخالف آواز کو کچل دیا جائے، ہر سیاسی جماعت کو روند دیا جائے، سیاسی قائدین کو عقوبت خانوں ڈال دیا جائے۔ ان کے اہل خانہ کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔ ان کی اس قدر تضحیک کی جائے کہ وہ اس ملک سے بیزار ہو کر کہیں اور چلے جائیں اور وہاں بھی ان کو گالیاں دینے والوں کے ڈیوٹیاں لگا دی گئیں۔ ان تینوں کا بس نہیں چلتا تھا کہ ہر اختلافی نکتہ کو مٹا دیا جائے۔ ہر زبان کھولنے والے کی زبان کاٹ دی جائے۔ صحافی ہو یا وکیل، جج ہو سیاسی کارکن، استاد ہو یا دکاندار، کاروباری شخصیت ہو یا شوبز کی کوئی پرسنیلٹی۔ اگر وہ ہاں میں ہاں ملائیں تو ان کو جینے کی اجازت دی جائے اور اگر اختلاف کریں تو ان کو  سولی پر ٹانگ دیا جائے۔ لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا۔ پہلے عمران خان 9مئی کو  اپنی کی بچھائی ہوئی بساط میں مات کھا گئے۔ پھر فیض حمید بھی اسی دام میں آ گئے۔ ثاقب نثار کے پاس بھی میزان وقت آئے گا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اس تکون سے نکل جائیں۔ ٹاپ سٹی تو ایک بہانہ ہے۔ اصل ڈاکہ تو ملک پر پڑا تھا۔ جب سب اسباب لوٹنے کا منصوبہ بنا تھا۔ اب اس کے حساب کا اور احتساب کا وقت ہے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ آج  ننگ وطن بن کر  زندان کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے ان فرعونوں  کو ادراک  ہورہا ہوگا کہ وقت کے فیصلے بہت اٹل ہوتے ہیں۔ اس سے فرار ممکن نہیں کیونکہ لکھ دیا گیا ہے کہ کسی ظالم کی حکمرانی کو دوام نہیں اور ہر جابر حاکم نے رونا ہے۔

Back to top button