انگلینڈ میں نسلی فسادات پھیلانے پر گرفتار ڈیفنس لاہور کا لڑکا کون ہے ؟

برطانیہ میں تین نوجوان لڑکیوں کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر جھوٹی خبر دے کر بد ترین فسادات پھیلانے والے لاہور سے گرفتار پاکستانی ملزم فرحان آصف نے تفتیش میں تسلیم کیا ہے کہ اس نے یہ حرکت صرف اور صرف سوشل میڈیا سے چند لاکھ روپے کمانے کے لیے کی جو کہ اس کا بزنس تھا۔ یاد رہے کہ 29 جولائی 2024 کو شمالی انگلینڈ کے علاقے ساؤتھ پورٹ میں ایک تقریب کے دوران ایک سترہ سالہ نوجوان نے چاقو کے وار سے تین کم سن بچیوں کو قتل جبکہ دس افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ اس واقعہ کے کچھ دیر بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا لیکن سوشل میڈیا پر اس کیس کو غلط رنگ دیتے ہوئے ڈیفنس لاہور کے رہائشی فرحان نے اس قتل کا ذمہ دیر علی نامی ایک مسلمان پناہ گزین کو قرار دے دیا جو کہ جھوٹ تھا۔ فرحان نے "چینل تھری ناؤ” نامی اپنی ویب سائٹ پر یہ خبر پوسٹ کی جو فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی پوسٹ ہو گئی۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے چینل تھری ناؤ نامی ویب سائٹ کہ جھوٹی خبر سوشل میڈیا پر آگ کی طرح پھیل گئی کہ تین بچیوں کو قتل کرنے والا مسلم شخص سال ہی کشتی کے ذریعے برطانیہ آیا تھا اور برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی کی واچ لسٹ پر تھا۔ یوں یہ ایک خبر برطانیہ میں مسلم مخالف مظاہروں اور فسادات کی وجہ بن گئی جس میں سیکڑوں افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

عمران، فیض اور ثاقب نثار جیسے فرعون بچ کیوں نہیں پائیں گے؟

اب برطانوی حکام کی درخواست پر پاکستانی اداروں نے یہ جھوٹی خبر چلانے والے فرحان آصف کو گرفتار کر لیا ہے۔ تفتیش کے دوران پتہ چلا ہے کہ فرحان آصف نے تن تنہا یہ کارروائی کی تھی۔ ملزم نے نہ صرف برطانوی عوام کو جھوٹی خبریں فراہم کیں بلکہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بھی یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ اسکی ویب سائٹ "چینل تھری ناؤ” کیلئے مختلف ملکوں میں کام کرنے والعں کی ایک ٹیم موجود ہے۔ جب اس کی ویب سائٹ جھوٹی خبر کی وجہ سے تنقید کی زد میں آئی تو فرحان نے موقف اختیار کیا کہ ایسی جعلی خبریں اسکا ایک ٹیم ممبر پھیلا رہا ہے۔

اس دوران لاہور پولیس نے اس کی ایک تصویر کو استعمال کرتے ہوئے فیس ٹریس ٹیکنالوجی کے ذریعے ملزم کا پتہ لگایا اور اسے گرفتار کر لیا۔ چونکہ جرم ایف آئی اے کے دائرہ اختیار میں آتا تھا، اس لئے اسے بعد میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے حوالے کر دیا گیا جس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کر دی۔ اب تک کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ 31 سالہ فرحان ایک کمپیوٹر سائنس گریجویٹ اور ویب ڈویلپر ہے جو چینل تھری ناؤ ویب سائٹ چلاتا تھا۔ اسکا صحافت کا کوئی پس منظر نہیں اور وہ صرف سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر پیسے کمانے کی خاطر سنسنی خیز خبریں چلاتا تھا۔ یہ کام اس کیلئے آسان کمائی کا ذریعہ اسلیے تھا کہ امیر ممالک میں جب اس کی ویب سائٹ کو وزٹ کیا جاتا تھا تو وہاں کی کلکس clicks سے زیادہ آمدن ہوتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ میں فسادات کروانے والا فرحان کبھی برطانیہ نہیں گیا۔ وہ صرف ایک بار عمرے کیلئے سعودی عرب گیا۔ گرفتاری کے وقت وہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی لاہور میں کرائے کے مکان میں رہتا تھا اور اس کا بھائی لاہور پولیس میں کانسٹیبل ہے۔ سنسنی خیز خبروں سے اسکی ویب سائٹ ماہانہ تین سے چار لاکھ روپے کمانے کر دیتی تھی۔ اب اس کا یوٹیوب اور فیس بک اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا ہے۔ تفتیش کے دوران فرحان نے بتایا کہ اس نے گوگل سے فیس بک آئی ڈی ’’کیون‘‘ خریدی اور اسے خبریں شیئر کرنے کیلئےاستعمال کیا۔ فرحان نے یہ بھی دعوی کیا کہ اس نے یہ جھوٹی خبر دراصل ایک اور ویب سائٹ سے لی تھی جسے برطانیہ میں مقیم ایک خاتون چلا رہی ہے۔ اس خاتون کو برطانوی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔

Back to top button