کیا تحریک انصاف کی اندرونی جنگ جلسہ منسوخ کرنے کی وجہ بنی ؟

گزشتہ برس مئی کے مہینے میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر ہونے والے مظاہروں نے اس سیاسی جماعت کی راہیں مسدود کر دی تھیں۔ تاہم اب  تحریک انصاف ایک بار پھر پنجاب میں سرگرم ہونے کے لیے کوشاں ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد وہاں چند ایک بڑے عوامی اجتماعات منعقد کیے گئے تاہم اپنی ہی حکومت ہونے کی وجہ سے شاید ان کی وہ پذیرائی ھاصل نہ ہو سکی، اس لیے عمرانڈو قیادت نے اب پوری توجہ پنجاب یا اسلام آباد کی حدود میں بڑا اکٹھ کرنے کی جانب مبذول کر رکھی ہے۔ تاہم تاحال وہ اپنے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں یکسر ناکام دکھائی دیتی ہے۔

ایک طرف جہاں پی ٹی آئی پنجاب میں اپنا وجود دوبارہ منوانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے وہیں اسے پنجاب میں ہی قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔گزشتہ ہفتے پنجاب کے صدر حماد اظہر سمیت لاہور کی قیادت نے اپنے عہدوں سے استعفے دے دیے تھے۔ ان استعفوں کی بڑی وجہ پارٹی کے اندر دھڑے بندیوں کا معاملہ تھا۔ ایک دھڑا میاں اسلم، اعظم سواتی وغیرہ پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا دھڑا حماد اظہر، حافظ فرحت اور دیگر کا ہے۔اس دھڑے بندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی لاہور کے نئے صدر شیخ امتیاز جمعرات کی صبح گرفتار کر لیے گئے۔ اور پھر جلسے کی تاریخ کی تبدیلی کے اعلان سے پہلے ایک بھی کارکن یا رہنما لاہور کی حدود سے اسلام آباد جلسے کے لیے روانہ نہیں ہوا۔حماد اظہر اور ان کے ساتھی جو 14 اگست کو اچانک منظرعام پر آئے، وہ اب پوری طرح لاتعلق دکھائی دے رہے ہیں۔قابل غور پہلو یہ ہے کہ دونوں دھڑوں کے کرتا دھرتا شمار ہونے والے رہنما 9 مئی کے مقدمات کے باعث خود منظرعام پر آنے سے قاصر ہیں۔

مخصوص سیٹیں نہ ملنے سے پی ٹی ائی کے غبارے سے ہوا نکلنے لگی

تاہم  دوسری جانب پارٹی میں بڑھتی ہوئی اختلافی آوازوں اور دھڑے بندیوں میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اس کی ایک جھلک پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے اسلام آباد کا جلسہ پانچویں بار منسوخ کرنے پر بھی دکھائی دی۔اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ ملتوی کرائے جانے کے حوالے سے پی ٹی آئی کے رہنما اعظم سواتی کا کردار اور اس تناظر میں بانی چیئرمین عمران خان کی بہن علیمہ خان کے شدید ردعمل اور معنی خیز بیان نے پارٹی رہنماؤں اور فعال کارکنوں میں مایوسی کے ساتھ ساتھ قدرے اشتعال بھی پھیلا دیا کیونکہ باربار تیاری کرنے کے احکامات ملنے کے بعد جلسہ ملتوی کرنے کے فیصلے سے اب وہ شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئےغیر فعال ہونے کی باتیں کرتھ دکھائی دئیے۔ سیاسی حلقوں اور پی ٹی آئی کے راہنماؤں اور کارکنوں میں یہ موضوع بھی سیاسی ہیجان کے ساتھ زیربحث رہا کہ جلسہ ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا خود عمران خان کا ایک یوٹرن تھا یا انہیں مقتدر حلقوں کی جانب سے کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں یا پھر معاملات کچھ اور تھے۔

تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف موجودہ حالات میں حکومت کے ساتھ ٹکراؤ نہیں چاہتی کیوں کہ اس سے دونوں کا نقصان ہوگا اور ملکی حالات کسی غیر یقینی صورتِ حال کی جانب جا سکتے ہیں۔

پاکستان میں جمہوری اور پارلیمانی اقدار پر کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ‘پلڈاٹ’ کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ایسا اجتماع جس میں تشدد کا خدشہ ہو اس کی اجازت دینا انتظامیہ کے لیے مشکل ہوتا ہے۔احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی کے خطرات بھی ہیں اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم بھی اسلام آباد میں قیام پذیر ہے۔ ایسے حالات میں جب سیکیورٹی اداروں پر پہلے سے دباؤ ہے ان کے لیے وفاقی دارالحکومت میں ایک بڑے عوامی جلسے کی اجازت دینا آسان فیصلہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے جلسے کی اجازت نہ دیے جانے کے بعد پی ٹی آئی کا جلسہ نہ کرنا دانش مندانہ فیصلہ ہے کیونکہ اگر پی ٹی آئی اور حکومت کا تصادم ہوتا ہے تو یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہو گا اور دونوں کو اس کا نقصان ہو گا۔

تاہم بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق بار بار جلسے کے اعلان کے بعد منسوخی سے کارکنوں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے جو کہ جماعت کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ حالیہ اسلام آباد جلسے کی منسوخی سے نہ صرف پارٹی قیادت میں اضطراب پایا جاتا ہے بلکہ محمود خان اچکزئی سمیت اتحادی اپوزیشن جماعتیں بھی پی ٹی آئی سے نالاں دکھائی دیتی ہیں۔

تجزیہ کارمحمل سرفراز کے مطابق جلسے ملتوی کرنے سے پی ٹی آئی کو نقصان ہی ہوگا۔اس سے پارٹی کو سیاسی نقصان ہوگا۔ یہ چیز بھی لگتی ہے شاید فیصلہ سازی کے عمل میں کوئی مسئلہ ہے۔پی ٹی آئی میں دھڑے بندی بہت زیادہ ہے لگتا ہے قائد کے بغیر ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی بات کررہا ہوتا ہے۔پی ٹی آئی قیادت کو پارٹی کارکنان کو بتانا چاہیے کہ اعظم سواتی اور گوہر خان صبح صبح اڈیالہ جیل میں کیوں گئے ان کو کیا پیغام آیا ہے کس ٹون میں میسج آیاہے۔ تاہم ہوسکتا ہے کہ بیرسٹر گوہر اور اعظم سواتی کو کسی نے کہا ہے عمران خان کو جاکر سمجھائیں لیکن یہ حقائق انھیں کارکنان کے سامنے لانے چاہیں۔

خیال رہے کہ فروری میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد سے پی ٹی آئی نے پانچ مرتبہ اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی تاریخ کا اعلان کیا۔ لیکن ایک مرتبہ بھی اعلان کردہ تاریخ پر عوامی اجتماع کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

تاہم سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کو سیاسی محاذ پر کامیابی کیلئے اپنے اندرونی اختلافات دور کرنے کی ضرورت ہے۔

سینیئر تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف نے اپنا اپوزیشن لیڈر بھی میانوالی سے رکھا ہوا ہے۔ ان کی لاہور میں اس طرح سے جڑیں اور سیاسی عمل دخل نہیں ہے تاہم ایسی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ لاہور کی قیادت کی تبدیلی میں ان کا بھی ہاتھ ہے۔ جس کی وجہ سے دوسرا گروپ بالکل ہی پیچھے چلا گیا ہے۔ پہلے جتنی کوئی سرگرمی دکھا رہا تھا، وہ حماد اظہر کا گروپ ہی تھا۔ میرے خیال میں عمران خان کے جیل میں ہونے کا سب سے بڑا نقصان ان کی پارٹی کے معاملات پر پڑا ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’اس لیے تو سیاسی طرز عمل اختیار کرنا ہمارے جیسے معاشروں میں اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ لیکن ابھی تو جو دکھائی دے رہا ہے جب تک عمران خان خود باہر نہیں آتے، تحریک انصاف کی سیاسی قوت میں کمزوری کی نشاندہی تو ہوتی رہے گی۔‘

Back to top button