پنجاب پولیس کچے کے ڈاکوؤں کو ختم کرنے میں ناکام کیوں ہے؟

صوبہ سندھ کے ساتھ لگنے والی پنجاب کی سرحد پر واقع کچے کے علاقے پر راج کرنے والے خطرناک ڈاکوؤں کے ہاتھوں ایک راکٹ حملے میں 12 پولیس والوں کی شہادت کہ بعض دوبارہ سے یہ سوال زیر بحث ہے کہ پنجاب پولیس سالہا سال کے دعووں کے باوجود انہیں ختم کرنے میں ناکام کیوں ہے۔

 یاد رہے کہ پاکستان کے تین صوبوں کے بارڈر پر واقع کچے کا لاکھوں ایکڑ رقبے پر مشتمل علاقہ گزشتہ چار دہائیوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کے لیے نو گو ایریا بنا ہوا ہے۔ پنجاب کے جنوبی علاقوں رحیم یار خان، صادق آباد اور راجن پور، جبکہ سندھ کے شمالی شہروں شکار پور، گھوٹکی اور کشمور کے دریائے سندھ کے اطراف علاقے ان ڈاکوؤں کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ اسی علاقے میں بلوچستان کی حدود بھی شروع ہوتی ہے۔ سرکاری محکموں کے ریکارڈ کے مطابق انگریز دور سے دریاؤں کے بہاؤں پر لگائے گئے حفاظتی بندوں کے اندر واقع علاقوں کو ’کچے کا علاقہ‘ کے طور جانا جاتا تھا۔یہ وہ علاقے ہیں، جہاں دریاؤں میں سطح آب بلند ہونے پر پانی باہر آتا ہے اور مقامی لوگ یہاں موسمی فصلیں اگاتے ہیں۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف موجود کچے کا علاقوں میں 80 کی دہائی سے خطرناک ڈاکوؤں کا راج ہے۔

کچے میں پولیس کے بھاری نقصان کے باوجود جوانوں کے حوصلے بلند ہیں : آئی جی پنجاب

پنجاب کے دریائے راوی اور چناب کے اطراف واقع کچے کے علاقوں کو بھی جرائم پیشہ افراد چھپنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سنگین وارداتوں میں ملوث منظم اشتہاری ڈاکودریائے سندھ کے اطراف میں موجود کچے میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں گزشتہ کئی دہائیوں سے ان علاقوں میں وقفے وقفے سے کئی آپریشن ہوتے رہے ہیں لیکن ڈاکوؤں کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا۔ڈیڑھ سال قبل سندھ اور پنجاب پولیس نے ان علاقوں میں مشترکہ آپریشن شروع کیا، جو اس وقت بھی جاری ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مسلح آپریشن کے باوجود کچے کے علاقوں میں چھپے ڈاکوؤں کی وارداتیں بھی جاری ہیں۔ اکثر یہاں سے گزرنے والے جی ٹی روڈ اور ملتان سکھر موٹر وے پر بھی وارداتوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس کامران خان کا کہنا تھا کہ ’کچے میں ڈاکوؤں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔’ڈاکوؤں کے خلاف مشترکہ آپریشن پلان کریں گے، جس میں پنجاب اور سندھ پولیس کے علاوہ دوسری فورسز کی مدد بھی لی جائے گی۔ تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کچے کے علاقے میں موجود ڈاکوؤں کے پاس جدید اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بدنام زمانہ ڈاکو ’چھوٹو گینگ‘ کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے والے سینیئر پولیس افسر عرفان سموں نے بتایا کہ ’کچے میں ڈاکوؤں کے پاس آر آر 75 جیسے جدید ہتھیاروں کے علاوہ مارٹر گولے، 12.7 اور 12.14 بور کی گنز ہیں۔ جبکہ پولیس کے پاس جی تھری اور ایس این جی بندوقیں ہیں، جن کا ڈاکوؤں کے پاس موجود جدید اسحلے سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔‘عرفان سموں کے بقول: ’پولیس کے پاس جو بکتربند گاڑیاں تھیں وہ بی- سکس ٹائپ کی تھیں، جن کے لیے کہا گیا کہ یہ صرف لوگوں کے لانے لے جانے کے لیے استمال ہو سکتی ہیں۔ یہ فائٹر بکتربند گاڑیاں نہیں تھیں۔ لیکن بعد میں ڈی سیون ٹائپ کی گاڑی ٹیکسلا سے منگوائی گئیں۔ لیکن ڈاکوؤں کے جدید ہتھیاروں کے سامنے ان گاڑیوں میں بھی حفاظت ممکن نہیں۔‘ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں کلاشنکوف پہلے سندھ کے ڈاکوؤں نے استعمال کی اور بعد میں پولیس کے پاس پہنچی۔ کلاشنکوف ملنے کے بعد ڈاکو طاقتور بن گئے اور جرم کرنے میں آسانی ہو گئی، جبکہ پولیس اور دیگر فورسز سے لڑنے کے لیے ڈاکوؤں نے راکٹ لانچر اور دیگر بھاری ہتھیار بھی خرید رکھے ہیں۔‘تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ’سندھ کے ڈاکو جدید ہتھیار افغان پناہ گزینوں سے خریدتے تھے یا پھر سمگلروں، یا بلوچستان لیویز فورس یا سندھ پولیس کے کرپٹ افسران سے خریدتے تھے۔ ڈاکو ان ہتھیاروں کی قیمت مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ادا کرتے ہیں۔‘حالیہ سالوں میں فیس بک پر چلنے والی تصاویر میں دیکھا گیا ہے کہ ان ڈاکوؤں کے پاس کلاشنکوف اور دیگر ہیوی اسلحے کے علاوہ راکٹ لانچر، اینٹی ایئرکرافٹ گنز سمیت دیگر جدید اسلحہ بھی موجود ہے۔

دوسری جانب سیکیورٹی ذرائع کے مطابق 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پاکستان فوج نے شمالی پاکستان میں دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب کیا۔ اس کے بعد بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور امن امان کی بگڑتی صورت حال کو کنٹرول کرنے کے لیے کراچی آپریشن کے علاوہ شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں موجود ڈاکوؤں کے خلاف بھی کارروائیاں شروع کی گئیں۔ان آپریشنز کے دوران جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور کے کچے میں رہنے والا چھوٹو گینگ گرفتار ہوا۔ اس آپریشن میں پنجاب پولیس کے 1600 اہلکاروں نے حصہ لیا مگر اس کے باوجود آپریشن ناکام رہا تھا، جس کے بعد پاکستان فوج کو شامل کیا گیا اور ہیلی کاپٹر بھی استعمال ہوئے۔ اس کے نتیجے میں چھوٹو گینگ کے متعدد رکن مارے گئے جب کہ بچ جانے والے گینگ کو پکڑا لیا گیا۔اس کے بعد بھی ڈاکووں کے خلاف کئی آپریشنز ہوئے، کئی گروہوں کا خاتمہ کیا گیا مگر ڈاکو راج ابھی تک قائم ہے۔سندھ کو پنجاب اور بلوچستان سے جوڑتے سرحدی راستوں، قومی شاہراہوں اور ذیلی سڑکوں کو کچے کے ڈاکو اپنا دائرہ کار سمجھتے ہیں۔

Back to top button