حکومت پی ٹی آئی کو مفاہمت کا لالی پاپ دینے پرکیوں تلی ہوئی ہے؟

ملکی سیاسی محاذ پر جہاں حکومتی و اپوزیشن جماعتیں اپنی سیاسی حکمت عملی کے مطابق نئی صف بندی میں مصروف دکھائی دیتی ہیں وہیں دوسری جانب ماضی قریب میں مزاحمتی سیاست کے روح رواں قائد مسلم لیگ ن میاں نواز شریف نے اپنے بھائی کے بیانیے کو اپناتے ہوئے مفاہمتی بیانیے کا پرچار شروع کر دیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے جہاں حکومتی اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے وہیں اپوزیشن جماعتوں سے بات چیت کے لیے بھی ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اس کمیٹی کو اپوزیشن جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اور معاشی معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے ایک سینیئر رہنما نے بتایا کہ نواز شریف اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانے کے خواہاں ہیں، اور تشکیل دی گئی کمیٹی کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں سے باضابطہ بات چیت کا آغاز کیا جائے گا۔

تاہم پی ٹی آئی کے رہنما شیعب شاہین نے ابھی تک کسی حکومتی کمیٹی کی طرف سے بات چیت کے لیے رابطہ کرنے کی تردید کی ہے۔دوسری جانب سیاسی ماہرین نے اپوزیشن جماعتوں سے بات چیت کے لیے کمیٹی کی تشکیل کو خوش آئندہ قرار دیا ہے۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ صرف کمیٹی کی تشکیل سے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سیاسی اور معاشی محاذ پر اتفاق رائے پیدا کرنا مشکل ہو گا۔ اہم پہلو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کی جماعتوں کے تحفظات کو کیسے دور کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ نواز شریف کی جانب سھ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سیاسی اور معاشی معاملات پر اتفاق رائے کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی میں نائب وزیراعظم اور سینیئر لیگی رہنما اسحاق ڈار، وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال شامل ہیں۔کمیٹی وفاقی سطح پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطہ کرے گی۔ لیگی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اپویشن کی جماعتوں سے رابطوں کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

اس تین رکنی کمیٹی کے اختیارات اور مقاصد کے حوالے سے ن لیگ کے ایک سینیئر رہنما نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر  بتایا کہ ’اپوزیشن جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف سے ملکی استحکام اور معیشت کے معاملات پر بات چیت کی جائے گی۔‘اُن کا کہنا تھا کہ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے سب جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر اپوزیشن جماعتیں کیا موقف رکھتی ہیں۔اُنہوں نے اس امکان کا بھی اظہار کیا کہ آئندہ ہفتے کمیٹی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ باضابطہ ملاقات بھی کر سکتی ہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما شعیب شاہین نے کہا کہ اگر حکومت نے بات چیت کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تو ہم بھی اس پر غور کریں گے۔انہوں نے حیرانگی کا اظہار کیا کہ ایک طرف ہمارے کارکنان گرفتار ہیں، ہمیں 14 اگست کو بھی جلسے کی اجازت نہیں ملتی تو ایسے میں بات چیت کیسے ہو گی؟شیعب شاہین نے حکومت کے ساتھ مثبت بات چیت کے لیے سازگار ماحول کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس وقت حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں اعتماد کا فُقدان ہے۔ حکومت صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں۔ اگر حکومت واقعی ہم سے بات چیت کرنا چاہتی ہے تو پہلے اس کے لیے کوئی ماحول تو بنائے۔

تاہم سینیئر سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کا خیال ہے کہ حکومتی کمیٹی اگر جے یو آئی ف یا جماعت اسلامی سے بات چیت کرے گی تو شاہد اُنہیں کامیابی ملے تاہم سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف سے کسی بھی بات چیت سے قبل جنگ بندی ضروری ہے۔’اگر دونوں طرف سے یونہی لفظی گولہ باری جاری رہے گی تو اس صورت حال میں حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان کسی اتفاق رائے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔‘اُنہوں نے بتایا کہ نواز شریف اس کمیٹی کے ذریعے کیا کرنا چاہتے ہیں ابھی یہ واضح نہیں ہے۔ آگے چل کر ہی پتہ چل سکے گا کہ کیا حکومت سب جماعتوں سے بات چیت کرے گی یا وہ صرف مخصوص جماعتوں سے ہی بات چیت کا سوچ رہی ہے۔معاشی معاملات پر اتفاق کے حوالے سے تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے معاملے پر ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ اگر خیبر پختونخوا کی حکومت کے ساتھ معاشی معاملات پر اتفاق رائے کے لیے کمیٹی کردار ادا کرے تو یہ ملک کے مفید ثابت ہو گا اس سے دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب بھی آ سکتی ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار اور اینکر پرسن اجمل جامی نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف کی جانب سے کمیٹی کی تشکیل قابل ستائش ہے۔ کاش یہ کاوش پہلے ہوئی ہوتی، بہرحال دیر آئے درست آئے۔انہوں نے پہلے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے رابطے اور اب کمیٹی کی تشکیل کے معاملے کو پی ٹی آئی سے بات چیت کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پہلے عمران خان سے جیل میں رابطہ ہوا اور اب کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ گویا اعشاریے بتا رہے ہیں کہ انگیجمنٹ شروع ہوئی ہے لیکن یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان بھی اس پیسرفت کا مثبت جواب دیں گے؟ کیونکہ عمران خان ابھی تک تو صرف اسٹیلبشمنٹ سے بات چیت کے خواہاں ہیں۔ تاہم لگتا ہے کہ عمران خان یہ مدعا اچکزئی الائنس کے ذمے ڈال کر خاموش رہیں گے۔‘

Back to top button