حکومت، اپوزیشن یا سولو فلائٹ، مولانا کیا فیصلہ کرنے والے ہیں؟

کسی بھی آئینی ترمیم کیلئے ترپ کا پتہ جے یو آئی کے ہاتھ میں ہے۔ اسی لئے آنے والے دنوں میں ملکی سیاسی منظر نامے میں ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان اہم کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اپوزشین جماعتیں اور حکمراں اتحادی دونوں ہی اُنہیں اپنے ساتھ ملانے کے لیے متحرک ہیں۔گزشتہ چند روز کے دوران جہاں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کے وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی وہیں صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کر چکے ہیں۔مولانا فضل الرحمان سے ہونے والی اِن دونوں ملاقاتوں کا اصل مقصد اُن کی حمایت حاصل کرنا تھا تاہم جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاست کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا یے کہ وہ اس وقت بھی حکمران اتحاد یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحادی بننے کے لیے زیادہ موزوں ہیں مگر  اس بار مولانا فیصلہ سازی پر وقت لگا رہے ہیں نہ تو وہ اپوزیش کے سامنے کوئی حامی بھر رہے ہیں اور نہ ہی حکومت اتحاد میں شامل ہونے پر آمادگی ظاہر کر رہے ہیں۔ لگتا یے وہ کسی اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ ملک کے مجموعی سیاسی حالات دیکھتے ہوئے کریں گے۔

خیال رہے کہ شہباز حکومت کے خلاف مل کر تحریک چلانے کے معاملے پر جمعے کو مولانا فضل الرحمان سے پی ٹی آئی وفد نے ملاقات کی تھی۔پی ٹی آئی وفد کی مولانا فضل الرحمان سے ہونے والی ملاقات میں سیاسی صورتحال پرمشاورت کی گئی تھی اور اس حوالے سے مختلف فیصلے بھی کیے گئے ہیں۔ملاقات کے بعد پی ٹی آئی اور جے یو آئی رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ’پارلیمنٹ میں قانون سازی پر مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو پارلیمانی معاملات کو آگے لے کر چلے گی۔‘تاہم بعد ازاں صدر آصف علی زرداری اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات میں جہاں ملکی سیاسی معاملات بارے بات چیت کی گئی وہیں ایک دوسرے سے شکوے شکایات بھی ہوئے تاہم دونوں جانب سے بات چیت کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

مولانا فضل الرحمن سے حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کی ملاقاتوں بارے سینیئر سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا معاملہ ہو یا اپوزیشن کی پر زور تحریک دونوں ہی صورتوں میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ ’قومی اسمبلی یا سینیٹ میں بالخصوص کسی آئینی ترمیم کیلئے قانون سازی میں جے یو آئی کے ووٹ فیصلہ کن ہو ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ حکومت ہر صورت مولانا فضل الرحمان کو ساتھ ملانے کی خواہاں ہے۔‘اُنہوں نے پی ٹی آئی کی مولانا کو رام کرنے کی کوششوں پر کہا کہ اگر جمعیت علمائے اسلام، پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت کو پارلیمان یا سڑکوں پر ٹف ٹائم دیتی ہے تو اس صورت میں پی ٹی آئی کے پاس حکومت سے لین دین کے آپشنز زیادہ ہوں گے۔’حکومت پر دُور رس بنیادوں کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے اپوزیشن الائنس بننا ضروری ہے اور اس کے برعکس حکمراں اتحاد ایسے کسی الائنس بننے کے حق میں نہیں ہے۔‘

ڈاکٹرحسن عسکری نے جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے حکمراں اتحاد یا اپوزیشن الائنس میں شامل نہ ہونے کی وجوہات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کے لیے اس وقت صورتحال کوئی واضح نہیں ہے۔’وہ حکومت کی مدّت اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے آخر میں کسی ایک آپشن کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس وقت لگ یہی رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کسی اتحاد میں شامل ہونے کے بجائے اپنی موجودہ پوزیشن برقرار رکھیں گے۔‘ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اپوزیشن اور حکومت کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سیاست میں تعلق زیادہ خراب نہیں کرتے کیونکہ پی ٹی آئی ہمیشہ جے یو آئی کو تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہے اور اس بار حکمراں اتحاد نے بھی حکومت سازی میں مولانا کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔

تاہم سیاسی تجزیہ ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ جمیعت علمائے اسلام کے ملک بھر میں بڑی تعداد میں منظّم کارکنان کسی بھی حکومت مخالف تحریک میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔’کسی عام سیاسی جماعت کے کارکنان کی نسبت جے یو آئی کے کارکنان کے خلاف مار کٹائی زیادہ مفید ثابت نہیں ہو سکتی۔‘انہوں نے بتایا کہ جے یو آئی کی ’سٹریٹ پاور‘ اِنہیں دوسری سیاسی جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے۔’مولانا فضل الرحمان کو اہمیت دینے کی دوسری وجہ پارلیمان میں نمبرز گیم ہے۔ اگرچہ ماضی کی نسبت مولانا کی پارلیمان میں کوئی زیادہ نمائندگی نہیں تاہم موجودہ پوزیشن میں بھی وہ حکومت یا اپوزیشن جماعتوں کے لیے اہم ہیں۔‘

ضیغم خان کے بقول ’چونکہ جمیعت علمائے اسلام اور پاکستان تحریک انصاف کا ماضی بالکل اچھا نہیں رہا، جے یو آئی کی صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی پی ٹی آئی کہ وجہ سے ہی کم ہوئی۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’بانی پی ٹی آئی عمران خان اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ایک دوسرے پر شدید تنقید کرتے آئے ہیں۔‘

اس کے برعکس مولانا فضل الرحمان ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اتحادی رہ چکے ہیں حال ہی میں پی ڈی ایم حکومت کا بھی حصہ تھے۔اِن وجوہات کی روشنی میں جمعیت علمائے اسلام کا ’نیچرل الائز‘ حکمراں اتحاد ہی ہے تاہم مولانا فضل الرحمان کافی سوچ سمجھ کے فیصلہ کریں گے۔

Back to top button