کیا جنرل عاصم کی اسٹیبلشمنٹ جنرل باجوہ کی اسٹیبلشمنٹ سے مختلف ہے؟

سینئر صحافی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ نواز شریف ملکی سیاست میں بہت اہم اور مثبت کردار ادا کرنے جارہے ہیں۔عمران خان کا ماضی تو ہے تاہم سیاسی حوالے سے کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔

اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ کہ نواز شریف نے کبھی کسی سے محاذ آرائی نہیں کی، فوج کے ساتھ جب بھی معاملات خراب ہوئے تو آغاز دوسری طرف سے ہوا۔انہوں نے کہاکہ پاناما کو بنیاد بنا کر نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نکالا گیا، اس میں ہوا بھرنے والے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف تھے کیونکہ وہ ایکسٹینشن مانگ رہے تھے مگر نواز شریف نے توسیع دینے سے انکار کردیاتھا۔عرفان صدیقی نے کہاکہ ڈان اخبار میں ایک خبر چھپنے کی بنیاد پر جب ڈان لیکس ایشو بنا تو مطالبہ کیا گیا کہ پرویز رشید، طارق فاطمی اور راؤ تحسین کو عہدوں سے ہٹایا جائے، نواز شریف ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن کرنا پڑا۔انہوں نے کہاکہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیرالاسلام نے نواز شریف کو پیغام بھجوایا کہ استعفیٰ دیں تو نواز شریف نے کہاکہ اسے جاکر بتا دو میں استعفیٰ نہیں دوں گا۔انہوں نے کہاکہ کوشش یہ تھی کہ نواز شریف اس وقت کے آرمی چیف کے سامنے بونا نظر آئیں، جو انہیں قبول نہیں تھا۔

عرفان صدیقی نے دعوی کیا کہ میں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنانے کے لیے نواز شریف کو سفارش کی تھی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ نواز شریف بحیثیت وزیراعظم جب عمران خان کو ملنے بنی گالہ گئے تو انہوں نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر وزیراعظم کا استقبال کیا، اور اکیلے میں بھی گفتگو کی۔ عرفان صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کا ماضی تو ہے لیکن سیاسی حوالے سے ان کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔

پاکستانی ججز نے اپنی عزت اور ساکھ کا جنازہ کیسے نکالا؟

عرفان صدیقی کے مطابق مسلم لیگ (ن) کا اطمینان تب ہوتا جب نوازشریف کو اقتدار سے نکالنے کے منصوبے اور اس میں ملوث کرداروں کا صندوق بھی کھولا جاتا جو ابھی تک بند ہے، شاید فیض حمید سے تحقیق کے نتیجے میں کوئی لیڈ اس صندوق تک بھی چلی جائے۔ ’پارٹ آف دی پرابلم‘ اسٹیبلشمنٹ جاچکی ہے، اب اسٹیبلشمنٹ ’پارٹ آف سلوشن ‘ ہے۔ جنہوں نے کانٹوں کی فصل بوئی تھی، وہ اب جاچکے ہیں، آج اسٹیبلشمنٹ اس فصل کو تلف کرنے میں کردار ادا کررہی ہے تو وہ پارٹ آف دی سلوشن ہی کہلائے گی۔

عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ 9 مئی کا پورا نیٹ ورک بے نقاب ہونا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات ٹھیک چل رہے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ہم اسٹیبلشمنٹ کو کسی غیرمعمولی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے تاہم یہ بھی حقیقت ہے خ آج کانٹوں کی یہ فصل جو میں ،آپ اور پوری قوم کاٹ رہی ہے، ایک فرد نے تو کاشت نہیں کی،‘ اسٹیبلشمنٹ نے اس کے لیے بڑی محنت مشقت کی، پانی دیا ، کھاد ڈالی اور پوری نگہداشت کی۔ اس فصل کو تلف کرنے اور حالات معمول پر لانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ آج کوئی کردار ادا کررہی ہے تو مسئلے کا حل ہی ہوئی۔ یہ فصل بونے والے چلے گئے اب کاٹنے والے آگئے ہیں ۔

ایک سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کو تحویل میں لینا فوج کا اندرونی معاملہ ہے، تاہم تحقیقات آگے بڑھیں گی تو اہم انکشافات سامنے آئیں گے کیونکہ فیض حمید 2024 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے لیے متحرک رہے، سروس کے دوران وہ اپنی ذات کے اندر ایک ادارہ بن چکے ہیں۔انہوں نے کہاکہ عمران خان کے دور میں پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر ایک کمرے میں آئی ایس آئی سربراہ کی زیرنگرانی ایک فوجی آفیسر بیٹھتے تھے، جو تمام چیزوں پر نظر رکھتے تھے۔ فیض حمید حدود و قیود سے آگے نکل کر کام کرتے رہے، وہ صحافیوں، میڈیا اور ججز کو کنٹرول کرتے رہے۔ ابھی تو آئی  فیض حمید کو تحویل میں لینے کے بعد کورٹ مارشل شروع ہوا ہے۔ آگے چل کراس حوالے سے انکشافات سامنے آئیں گے تو اس کے سیاست پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا یہ سول ذہن کی سوچ نہیں ہوسکتی، جنرل فیض سے ہونے والی تحقیقات میں آرمی چیف کا تختہ الٹنے جیسی سازشوں کے تانے بانے بھی ملتے دکھائی دے رہے ہیں۔

Back to top button