کیا ججز کی تعداد بڑھا کر حکومت آئینی عدالت بھی بنانے والی ہے ؟

وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھا کر 23 کرنے کے فیصلے کا بنیادی مقصد عدلیہ میں موجود عمرانڈو ججز کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا قرار دی جا رہی ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے میں اسے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا چونکہ ایسا سادہ قانون سازی سے ممکن ہے، اور ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے کوئی آئینی ترمیم درکار نہیں۔

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 23 کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود اور جسٹس ریٹائرڈ مظہر عالم کی سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعیناتی کی منظوری دی تھی۔ ایڈہاک ججز کی تقرری کے معاملے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی کی طرف سے تحفظات ظاہر کیے گئے تھے اور اسے ایک سیاسی فیصلہ قرار دیا گیا تھا لیکن وفاقی حکومت اس حوالے سے مزید آگے بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ سپریم کورٹ کی ججز کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب عدالت کے 8 ججز کی جانب سے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ آ چکا ہے جسے حکومت نے نیا آئین لکھنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ شہباز حکومت نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے کی بجائے آئین میں ہی ترمیم کر ڈالی جسے تحریک انصاف نے چیلنج کر دیا ہے۔

پاکستانی ججز نے اپنی عزت اور ساکھ کا جنازہ کیسے نکالا؟

اب وفاقی حکومت نے عدلیہ سے متعلق اہم قانون سازی کا فیصلہ کرتے ہوئے ،1997 کے ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کا ترمیمی بل قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروا دیا ہے۔ حکومتی رکن بیرسٹر دانیال چوہدری کے مجوزہ بل کے مندرجات بھی سامنے آگئے ہیں جن کے مطابق سپریم کورٹ ججز کی تعداد میں اضافہ کیسز بیک لاگ کے باعث ضروری ہے اور ججز کی تعداد میں اضافے سے کیسز کی بر وقت سماعت اور فیصلوں کو یقینی بنایا جاسکے گا۔  بل کے متن کے مطابق سائبر کرائم، ماحولیاتی قوانین اور عالمی تجارت کے کیسز میں ماہرین کی ضرورت ہے، مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے ججز کی تقرری سے درست فیصلہ سازی ممکن ہوسکے گی۔ یہ بھی کہا گیا یے کہ ججز کی تعداد بڑھانے سے کسی جج پر غیر ضروری دباؤ میں کمی ہوگی۔

حکومتی بل کے مطابق پاکستان کی طرز پر عدالتی نظام والے بہت سے ممالک میں ججز کی بڑی تعداد موجود ہے اس لئے ججز کی تعداد میں اضافے سے پاکستان میں بھی بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ فیصلے سامنے آئیں گے۔

تاہم تحریک انصاف کی جانب سے اس بل کی سخت مخالفت کی جا ہے اور اسے ایک سیاسی فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد حکومت کی مرضی کے فیصلے دینے والے ججوں کی تعداد بڑھانا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ اس فیصلے پر کئی ماہ سے مشاورت جاری تھی اور جولائی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے پر متفق ہو گئی تھیں۔ اس میٹنگ میں ائینی مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک ائینی عدالت تشکیل دینے کی تجویز بھی سامنے ائی تھی لیکن تحریک انصاف کے حامد علی خان اس کی مخالفت کی۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی عدالت کی تشکیل کی تجویز دی تھی لیکن حامد خان نے کہا کہ آئینی عدالت تو سپریم کورٹ ہے۔ دنیا میں جہاں بھی علیحدہ ایک آئینی عدالت بنائی گئی وہاں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

 قانون اعظم نذیر تارڑ نے اجلاس کے دوران کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے علاوہ ایک آئینی عدالت بھی ہونی چاہیئے۔ اس ہر پی ٹی آئی کے سینیٹر حامد خان نے کہا کہ آئینی عدالت سپریم کورٹ ہی ہے اور کوئی اور عدالت نہیں ہونی چاہیے، دنیا میں اگر آئینی عدالت الگ بنائی گئی تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، انکا کہنا تھا کہ فرانس اور جرمنی میں آئینی عدالتی متوازی نظام کے طور پر کام کرتے ہیں۔ بھارت میں ہم سے کئی گنا زیادہ آبادی پر بھی ایک سپریم کورٹ کام کر رہی ہے۔ رکن کمیٹی سینیٹر انوشہ رحمان نے کہاکہ سپریم کورٹ کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، ہماری عدلیہ ہائی پروفائل کیسز میں الجھ گئی ان کیسز کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے کہ جن سے خبر بنے، کچھ ججز اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں جبکہ کچھ نہیں کر رہے۔سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام کی حمایت کرتی ہوں، تا ہم اس حوالے سے کوئی فیصلہ تو نہیں ہو پایا تھا لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پتہ چلے گا کہ کوئی آئینی عدالت بنانے کے حوالے سے پیشرفت ہوتی ہے یا نہیں۔

Back to top button