کیا بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی گنجائش موجود ہے؟

پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان نسلی بلوچ عسکریت پسندوں کی دہائیوں سے جاری علیحدگی پسند شورش اور ملک دشمن دہشتگردوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ریاستی ادارےسیاسی و عسکری حکمت عملی کے تحت صوبے سے شرپسندی کے خاتمے کیلئے مربوط کارروائیوں میں مصروف ہیں اور جوان اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں وہیں دوسری جانب ایک بار پھر بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات اور مفاہمت کے مطالبے میں شدت آرہی ہے۔ تاہم جہاں حکومت نے ریاستی رٹ نہ ماننے والوں کی دھلائی کا پرعزم اعلان کر دیا ہے وہیں مبصرین کے مطابق پاکستان کو عسکریت پسندوں سے مذاکرات کا ہمیشہ نقصان ہوا ہے اس لئے حکومت کو نہ صرف بھرپور طریقے سے ریاست دشمن عناصر ٹھکائی کرنی چاہیے بلکہ ان کو ریلیف دینے کا مطالبہ کرنے والوں کو بھی دہشتگردوں کا سہولتکار قرار دے کر انھیں بھی قرار واقعی سزا دینی چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو ریاست دشمنی کی جرات نہ ہو۔

خیال رہے کہ ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گذشتہ چھ برسوں میں رواں سال کا اگست سب سے زیادہ پرتشدد رہا۔ بلوچستان میں ریاست مخالف شرپسندانہ کارروائیوں میں ’خطرناک اضافہ‘ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ کے مطابق اگست میں پاکستان بھر میں 92 عام شہری، 54 سکیورٹی اہلکار اور 108 عسکریت پسندوں سمیت کم از کم 254 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ تشدد کے واقعات میں 88 عام شہریوں، 35 سکیورٹی اہلکاروں اور 27 عسکریت پسندوں سمیت مزید 150 افراد زخمی ہوئے۔ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں ملک میں عسکریت پسندوں کے 83 حملوں کے نتیجے میں ہوئیں، جن میں 92 عام شہری، 47 سکیورٹی اہلکار اور 36 عسکریت پسندوں سمیت 175 افراد ہلاک اور 88 عام شہریوں اور 35 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 123 افراد زخمی ہوئے، رواں سال کے اگست کے مہینے کو جولائی 2018 کے بعد سب سے مہلک مہینہ قرار دیا جا رہا ہے۔تاہم دوسری جانب اگست کے دوران ہی سکیورٹی آپریشنز کے نتیجے میں 79 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 72 عسکریت پسند اور سات سکیورٹی اہلکار شامل تھے، جبکہ 27 عسکریت پسند زخمی ہوئے۔ سکیورٹی فورسز نے 12 مشتبہ عسکریت پسندوں کو بھی گرفتار کیا، جبکہ عسکریت پسندوں نے کم از کم نو افراد کو اغوا کر لیا، جن میں ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل اور ایک اسسٹنٹ کمشنر بھی شامل تھے جنہیں بعدازاں سیکیورٹی ادارے بحفاظت بازیاب کروانے میں کامیاب رہے۔

تاہم بلوچستان میں بڑھتی ہوئی شرپسندانہ کارروائیوں کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسئلہ بلوچستان کا کوئی پرامن حل موجود ہے؟ کیا طاقت کے استعمال سے صوبے میں قیام امن ممکن ہے۔ مبصرین کے مطابق بلوچستان کی صورتحال اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ ہم بلوچستان پر اپنی پالیسی کی سمت درست کریں۔ مقتدر حلقوں کو سب سے پہلے طے کرنا چاہیے کہ بلوچستان میں ہتھیار بند عناصر ناراض بلوچ ہیں یا وہ دہشت گرد ہیں۔ جب تک ہم یہ طے نہیں کریں گے تب تک پالیسی کی سمت درست نہیں ہو سکتی۔کچھ دوستوں کا اصرار ہے کہ ان کو ناراض بلوچ کے سیاسی نام سے لکھا اور پکارا جائے۔ ان کے بقول یہ باغی لوگ ریاست سے ناراض ہیں‘ ان کو منانے کے لیے ریاست کو کوئی پالیسی اور حکمت عملی بنانی چاہیے۔ لیکن دوسری طرف یہ استدلال اور نقطہ نظر ہے کہ ماضی میں ان ہتھیار بند باغیوں کو منانے کی جتنی بھی پالیسیاں بنائی گئی ہیں‘ ان کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔بلکہ ریاست کو اپنی نرم پالیسیوں کا سخت نقصان ہوا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب جب ریاست نے آئین وقانون کو نظر انداز کر کے عسکریت پسندوں سے بات کی ہے‘ریاست کی رٹ کمزور ہوئی ہے اور عسکریت پسند مضبوط ہوئے ہیں۔ وہ اس بات چیت کی آڑ میں خود کو مضبوط اور منظم کرتے ہیں اور پھر دہشتگردانہ حملے کرتے ہیں۔

 یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر بلوچ عسکری تنظیموں کے مطالبات کیا ہیں؟ ناقدین کے مطابق عسکری تنظیموں سے مذاکرات کے حامی عناصر کو سمجھنا چاہیے کہ بلوچستان میں ریاست کیخلاف برسر پیکار عسکری تنظیمیں بلوچ عوام کے حقوق نہیں مانگ رہیں بلکہ ان کا چارٹر آف ڈیمانڈ علیحدگی ہے۔ یہ ایک الگ آزاد اور خود مختار مملکت مانگ رہی ہیں اور اس کے لیے کام کر رہی ہیں۔ اب کیا ریاست پاکستان کسی علیحدگی پسند گروپ یا فرد سے اس مطالبے پر بات کر سکتی ہے‘ کیا کسی ایسی تنظیم یا فرد سے بات ہو سکتی ہے جو خدانخواستہ ملک کو توڑنے کی سازش میں شریک ہے۔ایسی کسی تنظیم سے کیسے بات ہو سکتی ہے جس نے خود ساختہ ایک الگ ملک کا نقشہ ‘ترانہ اور جھنڈا بنایا ہو۔ جو آئین پاکستان کو نہ مانتا ہو۔ مبصرین کے مطابق ملک توڑنے کی بات کرنے والے باغی عناصرنہ ناراض بلوچ ہیں نہ ان کے مطالبات آئین پاکستان کے دائرہ کار کے اندر ہیں اور نہ یہ بلوچ عوام کے بنیادی حقوق‘ مثلاً مفت تعلیم‘ انفرااسٹرکچر کی تعمیر‘ سرکاری نوکریاں وغیرہ مانگ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کو توڑنے کے لیے کام کر رہے ہیں لہٰذا ہم جب بھی ان سے مذاکرات کرتے ہیں، دراصل ان کی مدد کرتے ہیں، ان کو زندگی دیتے ہیں۔ اس لئے ایسے عناصر سے بات چیت کی بجائے ان شرپسندوں کی بھرپور طریقے سے دھلائی اور ٹھکائی ناگزیر ہے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی ریاست دشمنی اور ملک توڑنے کی سازش رچانے کی جرات نہ ہو۔ کیونکہ ملک میں کسی نئی مکتی باہنی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی پاکستان کو کسی نئے مجیب الرحمان کی کوئی ضرورت ہے۔ ریاست کو ہر حال میں اپنی رٹ قائم رکھنی ہے۔ اس ضمن میں نرمی پاکستان کی وحدت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔پاکستان میں جمہوریت قائم ہے، لیکن اس جمہوریت میں ملک توڑنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ان دہشت گردوں کا سیاسی مقدمہ لڑنے والے بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہیں جتنے بڑے دہشت گرد ہیں۔ ان دہشت گردوں کے لیے ہمدردی پیدا کرنے والوں کو بھی ان کا ساتھی اور سہولتکار سمجھتے ہوئے ان سے بھی شرپسندوں والا سلوک ہونا چاہیے گاکہ ریاست کی وحدت کو یقینی بنایا جا سکے۔

Back to top button