مریم حکومت کی جانب سے بجلی سبسڈی پر IMF نے اعتراض لگا دیا

باخبر حکومتی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے صارفین کو بجلی کے بلوں میں دو ماہ کے لیے دی گئی 14 روپے فی یونٹ کی 45 ارب روپے کی سبسڈی نے آئی ایم ایف حکام کو ناراض کر دیا جس کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور پاکستان کے مابین 7 ارب ڈالرز قرض پروگرام کا اجرا تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف حکام مسلسل حکومت پاکستان کو توانائی کے شعبے میں نقصانات ختم کرنے کے لیے سبسڈیز ختم کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف حکام کے مطابق عوام کو بجلی کے رعایتی پیکجز دینے کی بجائے بجلی کے شعبے میں اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ آئی پی پیز اور لائن لاسز کی وجہ سے اس شعبے کا خسارہ ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے جو پاکستان کی معاشی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کو رواں سال 27 ارب ڈالرز کے علاوہ آئندہ تین سال تک 25 ارب ڈالرز سے زائد رقم درکار ہے تا کہ وہ اپنی بین الاقوامی ادائیگیاں کرنے کے قابل ہو سکے۔ وزارت خزانہ کے باخبر ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے مابین 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کا اجرا اس لیے تعطل کا شکار ہوا یے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں میں دی جانے والی حالیہ سبسڈی نے آئی ایم ایف حکام کو ناراض کر دیا ہے۔ انکا خیال ہے کہ سبسڈی سے مستقبل میں حکومت پاکستان وہ قرضے ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے گی جو وہ اب حاصل کرے گی۔ تاہم دوسری جانب حکومت پنجاب کا موقف ہے کہ اس نے وفاقی حکومت کو امدادی پیکج پر آمادہ کیا تھا اور تب ہی اس کا اعلان بھی کیا گیا اس لیے یقینا وفاق نے آئی ایم ایف کو اس معاملے پر اعتماد میں لیا ہو گا۔ اس دوران پاکستانی حکام کو امید ہے کہ انہیں اب اگست کی بجائے آئی ایم ایف پروگرام کی حتمی منظوری ستمبر میں مل سکتی ہے۔

یاد ریے کہ حکومتِ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان رواں برس 12 جولائی کو 37 ماہ کے لیے سات ارب ڈالر فراہمی کا اسٹاف لیول معاہدہ طے پایا تھا۔ پروگرام کی منظوری فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی اجازت سے مشروط تھی۔ تاہم ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے قبل حکومتِ پاکستان کو ان ممالک سے ضروری فنانسنگ کی تصدیق لازم قرار دی گئی تھی جن سے پاکستان نے قرض حاصل کر رکھے تھے جو آنے والے مہینوں میں واجب الادا ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق صورتِ حال سے واضح ہو رہا ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کے رول اوور کے معاملات اب تک طے نہیں ہو پائے جس کی وجہ سے پاکستان کو رواں سال 27 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اس سے قبل وفاقی وزیرِ خزانہ نے اگست کے شروع میں اس خبر کو رد کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کے ذمے واجب الادا 12 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ چنانچہ امید کی جا رہی تھی کہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں جلد ہی پاکستان سے متعلق ایجنڈا شامل کر لیا جائے گا۔

لیکن بڑی اور بری خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اس کے ایگزیکٹو بورڈ کے 30 اگست تک کے جاری شیڈول میں پاکستان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ رواں ہفتے سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں وزیرِ خزانہ ارنگزیب نے ایک بار پھر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات مثبت انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اور امید ہے کہ ستمبر میں ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کا کیس بھی شیڈول میں ڈالا جائے گا۔ اورنگزیب نے ایک تقریب سے خطاب میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام جڑیں پکڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی واپس آرہا ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف کا توسیعی فنڈ پروگرام ملک کے معاشی استحکام کو مستقل کرنے میں مدد دے گا۔ لیک۔ حقیقیت میں وزیر خزانہ کی جانب سے حوصلہ افزا بیانات کے باوجود معاشی ماہرین آئی اہم ایف کے قرض پروگرام کے اجرا میں تاخیر پر خدشات کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق چین ابھی تک اپنا قرض رول اوور کرنے پر تیار نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ چین کی حکومت اور چینی بینکوں کے واجب الادا رقم سات ارب ڈالرز بنتی ہے جسے آئی این ایف کے پروگرام سے قبل رول اوور کرانا ضروری ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کے پانچ ارب ڈالر کے قرضوں کو رول اوور کرنے میں کوئی خاص دقت نہیں لیکن چین کے ساتھ اس وقت معاشی تعلقات کے میدان میں پاکستان کو قرضوں کے رول اوور میں بظاہر مشکلات ہیں۔ زرائع کے مطابق سی پیک کے تحت لگائے گئے توانائی منصوبوں میں پاکستان کے ذمے مجموعی طور پر 16 ارب ڈالر کی رقم ہو چکی ہے جس کی ادائیگی بھی پاکستان کے لیے مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہے۔
اس ضمن میں وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب اور وزیرِ توانائی سردار اویس لغاری چین کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ تاہم اس کے مثبت نتائج سامنے نہ آنے پر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چینی قیادت کو قرضے ری شیڈول کرنے سے متعلق خط بھی لکھا ہے جس کا تذکرہ انہوں نے کابینہ اجلاس میں بھی کیا تھا۔
تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خط پر چینی قیادت کی جانب سے کس ردِ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کو رول اوور کی یقین دہانی نہ ملنے کی وجہ سے ہی اب تک اس کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔ معاشی ماہرین کے مطابق نون لیگ کی حکومت کی جانب سے بجلی کے بلوں پر 45 ارب روپے کی سبسڈی دینے جیسے غیر مقبول فیصلے اب سب کو بھگتنا پڑ ریے ہیں۔

Back to top button