عمراندار ججز اور حکومت کی جنگ میں آخری جیت کس کی ہو گی ؟

عدالتی تعطیلات کے دوران ملکی سیاسی اور عدالتی محاذ پر ہونے والے مختلف فیصلوں بارے حکومتی اقدامات کے بعد عدلیہ اور شہباز حکومت میں محاذ آرائی بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ جہاں شہباز حکومت ہر صورت عمراندار ججز کو قابو کرنے اور ان کا زہر نکالنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرنے کیلئے کوشاں ہے وہیں عمرانڈو ججز نے بھی چھٹیوں کے دوران حکومت کو سیدھا کرنے اور اپنے کرش کو ریلیف دینے کیلئے چھریاں ٹوکے تیز کر لئے ہیں تاہم یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ عمرانڈو ججز اور عدلیہ کی جنگ میں جیت کس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔

یوں تو ہر سال معمول کے مطابق ستمبر میں نئے عدالتی سال کا آغاز ہوتا ہے مگر اس بار نئے عدالتی سال کی اہمیت اس لئے بڑھ گئی ہے کہ عدالتی چھٹیوں کے دوران حکومت نے عدلیہ سے متعلق کئی اقدامات اٹھانے کی کوشش کی، کئی تجاویز اور پلان زیر غور ہیں اور کچھ پر عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔حکومت 25 اکتوبر کو ہونے والی چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی تبدیلی کو اپنی بقا سے جوڑ رہی ہے، مختلف خدشات کے پیش نظر حکومتی حلقوں سے عدلیہ سے متعلق کئی پلانز خبروں اور قیاس آرائیوں کی صورت میں سامنے آئے، کبھی کہا گیا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کی جارہی ہے،پھر کہا گیا کہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں بلکہ تمام جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے بڑھا کر 68 سال کی جا رہی ہے۔یہ خبریں بھی آئیں کہ حکومت ہائیکورٹ کی طرز پر سپریم کورٹ میں بھی ججز کے پینل میں سے سنیارٹی سے ہٹ کر چیف جسٹس مقرر کرنے کیلئے تگ و دو کر رہی ہے۔

فیض حمید بانی PTI کو 9 مئی کی سازش میں کیسے پھنسا سکتے ہیں ؟

اسی دوران ججز کی تعداد میں اضافے سے متعلق نہ صرف خبریں آئیں بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بل بھی پارلیمنٹ میں پیش کر دیا گیا، توہین عدالت کے قانون کی منسوخی سے متعلق بل بھی قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے، بیوروکریٹس اور ججز کی دہری شہریت سے متعلق آئینی ترمیمی بل بھی پیش کر دیا گیا ہے، سو موٹو کے اختیار سے متعلق نہ صرف خبریں سامنے آئیں بلکہ نور عالم خان کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184 تھری میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے کہ عوامی نوعیت کے مقدمے میں کم سے کم نو ججز پر مشتمل بنچ فیصلہ کرے۔ مبصرین کے مطابق ان مبینہ حکومتی منصوبوں میں ابھی تک کوئی ٹھوس چیز سامنے نہیں آ سکی سوائے ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 21 کرنے کے بل کے، جو کہ واحد اقدام ہے جسے آسانی سے عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے، اگرچہ ججز کی تعداد بڑھانے کے معاملے پر حکومتی عزائم کچھ اور ہی نظر آتے ہیں مگر اس معاملے پر عدلیہ کی جانب سے کوئی ردعمل شاید اس لئے نہیں آئے گا کیونکہ یہ کیسز کے بڑے بیک لاگ کے خاتمے کیلئے وقت کی ضرورت بھی ہے اور اس معاملے میں آئین کی بجائے صرف قانون میں سادہ اکثریت کے ساتھ ترمیم کرنی ہے۔ججز کی تعداد بڑھانے کی ٹائمنگ مشکوک سہی مگر یہ بات حقیقت ہے کہ ججز کی تعداد بڑھانا ایک ضرورت بھی ہے یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کی تعیناتی بھی کی جا چکی ہے۔

مبصرین کے مطابق ججز کی تعداد میں اضافے کے علاوہ حکومت کو عدلیہ بارے باقی پلانز کو آگے بڑھانے میں کئی مشکلات درپیش ہیں، حکومت چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کی خواہشمند ہے لیکن قاضی فائز عیسیٰ مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے، چیف جسٹس کی جانب سے توسیع سے انکار کے بعد حکومتی قانونی ٹیم نے آئین کے آرٹیکل 175 اے (3) میں ترمیم پر بھی غور کیا کہ ہائیکورٹ کی طرز پر کسی بھی سینئر جج کو چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کیا جاسکے مگر اس پر پیشرفت نہ ہو سکی۔اسی طرح توہین عدالت قانون کو منسوخ کرنے کا بِل قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے، تاہم قانونی ماہرین کے مطابق اگر اس قانون کو منسوخ کر بھی دیا جائے تو بھی آئین میں توہین عدالت کی پاورز عدلیہ کے پاس موجود ہیں، عدلیہ کوئی بھی ایسا قانون بنانے یا منسوخ کرنے کی اجازت کیسے دے گی جو آئینِ پاکستان سے متصادم ہو؟ یہی وجہ ہے کہ توہین عدالت ختم کرنے کا قانون منظور ہو بھی جائے تو حکومت کو اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا  کیونکہ معاملہ جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تبدیلی کا ہو، آرٹیکل 175 اے(3) میں ترمیم کا یا توہینِ عدالت کے قانون کی منسوخی کا، اس کے اثرات اور نتائج سے حکومت بخوبی آگاہ ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت ابھی تک عدلیہ بارے کوئی واضح قدم اٹھانے سے گریزاں ہے۔

تاہم مبصرین کے مطابق حکومت عدلیہ بارے کسی قانون سازی اور آئین سازی کامیاب ہو سکے گی یا نہیں تاہم یہ بات بڑی واضح ہے کہ تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں سے متعلق تحریری تفصیلی فیصلہ ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کرے گا کیونکہ جسٹس منصور علی شاہ اور باقی ججز چند روز میں تعطیلات کے بعد اپنی ذمہ داریاں سنبھال لینگے جس کے بعد  نہ صرف مخصوص نشستوں کا تحریری فیصلہ سامنے آئے گا الیکشن ٹربیونلز کا معاملہ بھی سماعت کیلئے مقرر ہوگا جس میں سٹے آرڈرز کے باعث ملک میں دھاندلی کی شکایات سننے والے ٹربیونلز عملاً غیر فعال ہیں۔ یہ دونوں فیصلے حکومت کو مشکلات سے دوچار کر سکتے ہیں۔ اس لیے اب تمام نظریں سپریم کورٹ پر مرکوز ہیں۔ تاہم حکومت کو ذمہ دار حلقوں کی جانب سے یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ 25 اکتوبر کے بعد کی صورتحال کو متنازع بنانے کی بجائے اس پر اپنی حکمت عملی کو واضح کیا جائے ورنہ مستقبل میں ممکنہ تصادم نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔

Back to top button