دو تہائی اکثریت سے پارلیمنٹ کی مدت 10 سال کرنے کا منصوبہ تیار

شہر اقتدار اسلام آباد میں افواہیں گرم ہیں کہ اتحادی حکومت دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد پارلیمنٹ کی مدت 5 سال سے بڑھا کر 10 سال کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے اور ایسا کرتے ہوئے اسے طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہو گی۔

سینیئر صحافی نصرت جاوید نے اپنے سیاسی تجزیے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس کا حتمی فیصلہ آ جانے کے بعد نواز لیگ اور پیپلز پارٹی پر مبنی اتحادی حکومت کو تیزی سے دو تہائی اکثریت کا "خمار” چڑھنا شروع ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’سامان سوبرس کا ہے پل کی خبر نہیں‘‘ والا مصرعہ بنجاروں اور فقیروں سے منسوب تصور ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا غور سے مطالعہ کریں تو اس مصرعے کا اطلاق پاکستان میں ہر نوعیت کے حکومتی بندوبست پر ہوا ہے۔ ایسا بندوبست ہمیشہ دس سالہ بنیادوں کے لیے کرنے کا پلان بنایا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں بھی 10 سال تک ملک پر حکمرانی کے خواب دیکھے جاتے تھے۔ اب ایک مرتبہ پھر تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ 1958 میں جنرل ایوب خان مارشل لگا کر ملک پر قابض ہوئے تو موصوف نے پاکستان کو سنوارنے کے لئے اسے صدارتی نظام کا تحفہ دیا۔ انہوں نے یونین کونسلوں پر مشتمل بلدیاتی نظام بنایا۔ اسکے بعد انہوں نے کئی قدآور سیاست دانوں کو ’’سات سال‘‘ کے لئے ایبڈو قوانین کے تحت سیاست میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا۔

راوی ان کے لئے چین ہی چین لکھا کرتا تھا۔ حالات پر کامل کنٹرول کے اس موسم میں فیلڈ مارشل  ایوب خان نے 80,000یونین کونسلروں کے ذریعے 1964ء میں ایک بار پھر ’’عوام کی حمایت سے‘‘ صدر پاکستان منتخب ہونے کا فیصلہ کیا۔ ان کی راہ روکنے کے لئے تمام سیاستدان متحد ہوکر قائد اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی قیام گاہ کے باہر بھکاریوں کی طرح جمع ہوگئے۔

پاکستان کی تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں نے اکٹھے ہو کر مادر ملت فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مد مقابل بطور صدارتی امیدوار کھڑا کر دیا۔ لیکن محترمہ کو ایوب خان کی مشینری نے الیکشن میں ہرا دیا۔

ایوب خان ’’دھاندلی‘‘ کی تہمت کو شاید زیادہ عرصہ برداشت نہ کر پاتے۔ ان کی خوش قسمتی کہ ستمبر 1965 میں بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا۔ ملک کی حفاظت کے جذبے نے مغربی پاکستان کہلاتے والے علاقوں کو متحدہ کر دیا۔ لیکن مشرقی پاکستان والوں کو پاک-بھارت جنگ کے دوران بیرونی جارحیت سے بچنے کا کوئی مؤثر بندوبست نظر نہ آیا۔ ان لوگوں کو محسوس ہوا کہ پاکستان گویا مغربی پاکستان ہی پر مشتمل ہے اور بھارت کے حملے سے بھی فقط اسے ہی بچانا ہو گا۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ اسی سوچ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن نے 6 نکات کا اعلان کیا جن کا حتمی نتیجہ 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں نکلا۔ لیکن بات ’دس سال‘ کی ہورہی تھی۔

بلیک منی دبئی بھجوانے والے خفیہ سرمایہ دار FIA کے ریڈار پر

 

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ 1968 میں ایوب خان نے اپنے اقتدار کے دس سال مکمل کرلئے تو ان کے ذہین وفطین سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر نے ’’عشرہ ترقی‘‘ کے نام سے دس روزہ جشن کا اعلان کردیا۔ ’’جشن‘‘ میں بھنگ ڈالنے کے لئے طلباء تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن میدان میں اتری تو جلد ہی عوامی تحریک اْبھر اْٹھی۔ اس کے نتیجے میں ایوب خان استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گیا۔ لیکن اس کی جگہ ایک اور فوجی آمر آغا جنرل محمد یحیی خان نے لی۔ ایوب خان کے زوال کا جائزہ لیتے ہوئے اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے عوام نہایت سنجیدگی سے یہ سوچتے تھے کہ پاکستان نے 1965ء کی جنگ کے دوران بھارت کو ذلت آمیز شکست سے دو چار کیا تھا۔ لیکن ایوب خان نے تاشقند مذاکرات کے دوران ’’جیتی ہوئی جنگ‘‘ مذاکرات کی میز پر ہاردی۔ اس تصور کو ان ہی کے لگائے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے فروغ دیا جو بعدازاں ’’نئے پاکستان‘‘ کے وزیر اعظم بنے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ 1977ء کے الیکشن ہوئے تو قومی اسمبلی میں بھٹو کو دو تہائی اکثریت تو مل گئی لیکن دھاندلی کا الزام لگنے کے بعد ایک عوامی تحریک کا آغاز ہوگیا۔ اس تحریک کا انجام جنرل ضیاء کے مارشل لاء کی صورت میں نکلا جو سیاستدانوں کی محتاجی کے بغیر گیارہ سال تک تمامبتر اختیارات کیساتھ برسر اقتدار رہا۔ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی بھی دے دی گئی جسے بعد میں جوڈیشل مرڈر قرار دیا گیا۔ جنرل ضیا سے پاکستانی قوم کی جان بالاخر اللہ تعالی نے چھڑوائی جب وہ اگست 1988 میں ایک حادثے میں جہنم رسید ہوئے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کا حتمی فیصلہ آ جانے کے بعد ایک بار پھر ’’دوتہائی اکثریت‘‘ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اسلام آباد میں افواہیں ہیں کہ جو دو تہائی اکثریت اس فیصلے کے نتیجے میں ملے گی اسے فروری 2024 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی اسمبلی کی مدت کو پانچ کی جگہ دس سال تک بڑھانے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ یعنی موجودہ حکومتی بندوبست میں شامل خواتین و حضرات ہینگ یا پھٹکڑی لگائے بغیر یوں 2034 تک ہمارے ’’سرکار مائی باپ‘‘ رہیں گے۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ غیب کا علم تو صرف اللہ تعالی کو ہے لیکن موجودہ دو تہائی اکثریت کا خیال میرے وسوسوں بھرے دل کو 1977 والی دو تہائی اکثریت اور 1996 والے ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کی یاد دلا رہا ہے جسکی بدولت بڑے میاں صاحب ’’شرعی نظام‘‘ کے نفاد سے ہمارے ’’امیر المومنین‘‘ بننا چاہ رہے تھے لیکن 12 اکتوبر 1999 کو وہ اقتدار سے محروم ہو کر اٹک قلعہ کی جیل میں پہنچ گے۔ ایسے میں موجودہ حکمرانوں کے لیے مفت مشورہ یہی ہے کہ وہ ’’دو تہائی اکثریت‘‘ کے خمار سے پرہیز ہی کریں تو بہتر ہے۔

Back to top button