بلیک منی دبئی بھجوانے والے خفیہ سرمایہ دار FIA کے ریڈار پر

کالے دھن سے متحدہ عرب امارات میں خفیہ جائیدادیں بنا کر ملکی معیشت کو کھوکھلا کرنے والے پاکستانی سرمایہ کار بالآخر ایف آئی اے اور ایف بی آر کے ریڈار پر آ گئے۔ گولڈن ویزوں کے ذریعے ریاستی نظام کو چکما دینےوالے پاکستانیوں کو انہی گولڈن ویزوں نے ہی بے نقاب کر دیا۔ ریاستی اداروں نے متحدہ عرب امارات میں لاکھوں درہم مالیت کی خفیہ جائیدادیں بنانے والے پاکستانیوں کے حوالے سے تمام ثبوت اکٹھے کر لیے ہیں اور ان کے خلاف حوالہ ہنڈی، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری جیسے سنگین الزامات کی چھان بین شروع کر دی ہے۔ جس کے بعد غیر قانونی طریقے سے متحدہ عرب امارات میں جائیدادیں بنانے والوں کا ٹھکنا یقینی ہو گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق کالے دھن سے دبئی اور متحدہ عرب امارات میں جائیدادیں بنانے کے سامنے آ نے والے سکینڈل میں کئی پردہ نشینوں کے بھی بے نقاب ہونے کا امکان ہے۔

 

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں 20لاکھ درہم سے زائد کی خفیہ جائیدادیں رکھنے والے ہزاروں پاکستانی افراد کا ڈیٹا ایف آئی اے امیگریشن نے ایف بی آر کے حوالے کر دیا ہے جبکہ ان شہریوں کے خلاف ایف آئی اے اور ایف بی آر نے علیحدہ علیحدہ تحقیقات بھی شروع کر دی ہیں، ذرائع کے مطابق جرم ثابت ہونے پر ایف آئی اے میں ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور حوالہ ہنڈی کے کیس بنائے جائیں گے جبکہ ایف بی آرملزمان کے خفیہ اثاثوں کا حساب لگا کر ان پر لگنے والے انکم ٹیکس اور کیپیٹل ویلیو ٹیکس وصول کرنے کی کارروائی کرے گی۔ معلوم ہوا ہے کہ ان افراد کا سراغ ان کے پاس موجود دبئی کے گولڈن ویزوں سے لگا یا گیا ہے۔ جو عموما دبئی میں بڑی سرمایہ کاری کرنے والوں کو دیئے جاتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ افراد پاکستان میں کمائی گئی دولت کو حوالہ ہنڈی کے ذریعے دبئی منتقل کرتے رہے اور وہاں مسلسل سرمایہ کاری کر کے ملک کو زرمبادلہ کی مد میں اربوں اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا چکے ہیں۔ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سرمایہ کاری کرنے والوں کی معلومات کے تبادلے کا معاہدہ ہونے کے باوجود دبئی حکام نے کبھی ان ہزاروں پاکستانیوں کا ڈیٹا پاکستانی حکام کو فراہم نہیں کیا تھا۔ تاہم اب ایف بی آر اور ایف آئی اے نے اپنے ذرائع سے ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

کیا مریم حکومت پی ٹی آئی کے معطل اراکین کوڈی سیٹ کرواپائےگی؟

 

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے بڑے ٹیکس چوروں اور خفیہ سرمایہ کاری کرنے والوں کا سراغ لگانے کیلئے ایف بی آر کو ٹاسک دیا گیا تھا تا کہ جن شہریوں نے بیرون ملک اربوں روپے کے اثاثے بنارکھے ہیں، ان سے قوانین کے مطابق ریکوریاں کی جائیں۔ اس کیلئے ایف بی آر میں ڈائریکٹوریٹ جنرل بنایا گیا۔ جو دنیا کے ان تمام ممالک سے رابطے کر کے وہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کا ڈیٹا حاصل کر کے اس کی چھان بین کرتا ہے، جن ممالک کے ساتھ پاکستان کے مختلف بین الاقوامی معاہدوں کے تحت معلومات کے تبادلے کا نظام موجود ہے۔ ان ممالک میں یورپ اور ایشیا سمیت درجنوں ممالک شامل ہیں۔ اس ڈائریکٹوریٹ جنرل کی جانب سے گزشتہ برسوں میں ہزاروں ایسے پاکستانیوں کا ڈیٹا جمع کیا گیا، جنہوں نے مختلف ممالک میں کھربوں روپے کے اثاثے بنارکھے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ سرمایہ کاری پاکستان میں اپنے ایف بی آر کھاتوں میں ظاہر نہیں کر رکھی ہے۔ تاہم ان میں سے ہزاروں افراد پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران نافذ کی جانے والی ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھا کر ان اثاثوں کو ظاہر کر چکے ہیں۔ جس پر انہوں نے صرف 6 فیصد ٹیکس دے کر اپنے اثاثے محفوظ بنا لئے ہیں۔ اس لئے ان کے خلاف کبھی منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے کیس نہیں بنائے جاسکے۔ ذرائع کے بقول پاکستانیوں کی بیرون ملک سرمایہ کاری میں سب سے بڑا حجم دبئی میں ہے۔ حالیہ عرصہ میں ایف بی آر حکام کی جانب سے دبئی حکام سے ایسے پاکستانیوں کا ڈیٹا حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی گئی۔ جنہوں نے لاکھوں اور کروڑوں ڈالرز کے حساب سے دبئی میں اثاثے بنارکھے ہیں۔ تاہم اس میں کامیابی نہ ملنے کے بعد ایف آئی اے کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ ایسے پاکستانیوں کا کھوج لگائے۔ جس کے بعد ان ہزاروں پاکستانیوں کی بیرون ملک آنے جانے کی مانیٹرنگ کی گئی جو خصوصی طور پر دبئی کے گولڈن ویزوں پر جاتے اور واپس آتے ہیں۔ ان کا ڈیٹا یومیہ بنیادوں پر ملک بھر کے ایئر پورٹس سے جمع کر کے مرتب کیا جانے لگا۔ چونکہ دبئی حکام 20لاکھ درہم سے زائد سرمایہ کاری کرنے والوں کو یہ ویزے جاری کرتے ہیں۔ تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ مزید دولت دبئی منتقل کرتے رہیں۔ گولڈن ویزوں پر سفر کرنے والوں کو عام مسافروں کے مقابلے میں خصوصی پروٹو کول بھی ملتا ہے۔

 

حالیہ دنوں میں وزارت داخلہ اور وزارت خزانہ کے ساتھ وزارت صنعت و تجارت کے درمیان اجلاسوں میں اس ڈیٹا کی رپورٹ پر بات چیت کے بعد یہ ریکا رڈایف بی آر کو بھی فراہم کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد دبئی کے گولڈن کارڈز رکھنے والے اور کئی برسوں سے یواے ای کی خصوصی دستاویزات پر سفر کرنے والے پاکستانیوں کے خلاف بیرون ملک کروڑوں درہم کی خفیہ سرمایہ کاری بارے تحقیقات کی گئی ہیں جبکہ اب تک ایسے ہزاروں پاکستانی شہریوں کی شناخت کرلی گئی ہے، جنہوں نے متحدہ عرب امارات بالخصوص دبئی  میں 20 لاکھ اماراتی درہم یا اس سے زائد مالیت کی جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ مگر ان اثاثوں کو نہ تو اپنے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کیا اور نہ ہی ان سے حاصل ہونے والی آمدنی یا منافع پر انکم ٹیکس ادا کیا۔ ان کے خلاف اب پاکستان میں ٹیکس قوانین اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت بڑے پیمانے پر کارروائی جاری ہے۔ اس حوالے سے جلد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں متوقع ہیں جن میں کئی پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

Back to top button