افغانستان کا TTPکےمطلوبہ کمانڈر ز پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار

 

 

 

ترکی میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے راؤنڈ میں افغان حکام نے پاکستان کا یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے معذوری ظاہر کر دی کہ وہ افغانستان میں موجود تحریک طالبان کے مطلوب کمانڈرز پاکستان کے حوالے کر دے، تاہم دونوں اطراف نے مشترکہ طور پر سرحدی نگرانی کا ایسا میکانزم تشکیل دینے پر اتفاق کیا جو افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردوں کی دراندازی روکنے میں مددگار ثابت ہو۔

 

باخبر ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد نے افغان حکام پر واضح کیا کہ اب اگر تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہو کر ایک بھی حملہ کیا تو اس کے جواب پاکستان افغانستان پر فوری حملہ کر دے گا۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے اسی پیرائے میں یہ جارحانہ بیان دیا تھا کہ اگر پاک افغان بات چیت ناکام ہوئی تو کھلی جنگ ہوگی۔ اس دھمکی کا سیدھا مطلب ہے کہ پاکستان دہشتگرد گروہوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل پیرا ہو چکا ہے۔

 

یاد رہے کہ اس سے پہلے اپنے دورہ بھارت کے دوران افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ دہشتگردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور افغانستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن دوحہ مذاکرات میں افغانستان نے تسلیم کر کیا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کی قیادت کو پاکستان میں کارروائیوں سے روکے گا۔ اس سے پہلے 15 اگست 2021 کو جب افغانستان میں طالبان نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان نے اس حکومت کو خوش آئند قرار دیا تھا۔ اسکے بعد نومبر 2021 میں افغان وزیرِخارجہ امیر خان متقی کو اِسلام آباد مدعو کیا گیا۔ گو کہ پاکستان نے باقی اکثریتی ممالک کی طرح سے افغان طالبان حکومت کو ابھی باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا لیکن اس نے افغانستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو اپ گریڈ کرتے ہوئے افغانستان میں ناظم الاُمور کی جگہ سفیر تعینات کر دیا، اِسی طرح افغانستان نے بھی پاکستان میں اپنا سفیر تعینات کر دیا۔

 

لیکن توّقعات کے برعکس افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں دہشتگردکی کی کارروائیاں تیز ہو گئیں۔ اس کی بڑی وجہ ٹی ٹی پی تھی جو دہشتگرد حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے پچھلے 4 سال کے بیانات میں ایک چیز متواتر نظر آئے گی کہ افغانستان، پاکستان میں دہشتگرد کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین کا استعمال روکے لیکن افغان حکومت مُصر رہی کہ پاکستان میں دہشتگرد حملوں میں افغان سرزمین کا استعمال نہیں کیا جاتا، لیکن بالآخر دوحہ مذاکرات میں افغان حکومت نے پاکستانی موقف تسلیم کر لیا۔

 

افغان اُمور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ افغان طالبان، تحریک طالبان یا ٹی ٹی پی سے لاتعلق ہو جائیں اور ان کے مطلوب کمانڈرز کو پاکستان کے حوالے کر دیں۔ وجہ یہ ہے کہ دونوں گروپ ملا محمد عمر کو امیر المومنین مانتے تھے اور انہوں نے مشترکہ طور پر افغان جنگ میں اتحادی افواج کا سامنا کیا تھا۔ تایم دونوں میں ایک فرق ضرور ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان کو امارتِ اِسلامیہ تو کہتے ہیں لیکن ان کا امیر کمانڈر نور ولی محسود ہے، دوسری جانب افغان طالبان ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کو اپنا امیر مانتے ہیں۔

 

2001 کے نائن الیون حملوں کے بعد جب امریکہ نے کابل پر حملہ کیا تو تمام طالبان بھاگ کر پاکستان  آ گئے تھے۔ اُس وقت پاک افغان بارڈر پر خاردار باڑ نہیں لگی تھی۔ سرحدیں کُھلی تھیں اور آسانی سے آنا اور جانا ہو سکتا تھا۔ جب افغان طالبان پاکستان آنا شروع ہوئے تو یہاں لوگوں نے اُنہیں پناہ دی، اور اُن کی مہمان نوازی کی۔ پاکستان طویل عرصے سے افغان طالبان کو کہتا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کو کنٹرول کریں جو وہ نہیں کر رہے تھے، لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق دوحہ اور استنبول میں یونے والے مذاکرات کے بعد اب صورتحال مختلف ہو گئی ہے۔ اب قطر اور ترکیہ ان مذاکرات میں شامل ہو گئے ہیں۔ لہٰذا جب دو ممالک بطور ضامن مزاکراتی عمل میں شامل ہو چکے ہیں تو افغان طالبان کو تحریک طالبان کے جنگجوؤں کی سرپرستی چھوڑنے کا مطالبہ ماننا پڑے گا۔

 

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی سے قطع تعلقی تو نہیں کر سکتے لیکن اُنہیں پاکستان میں دہشت گردی کرنے سے لازمی طور پر روک سکتے ہیں۔ حالیہ مذاکراتی دور میں بھی افغان طالبان سے بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں دہشت گردی کرنے سے روکا جائے اور طالبان حکومت اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کرے۔

ٹی ایل پی پر پابندی: کیا ریاستی سوچ بدل گئی یا وقتی غبار ہے؟

ادھر معروف صحافی اور افغان امور کے ماہر فخر کاکاخیل کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے لیے ٹی ٹی پی، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ، جماعتِ انصار اللہ، جیش العدل اور القاعدہ کے لوگوں سے پیچھا چھڑانا ناممکن ہے، کیونکہ یہ تنظمیں تحریک طالبان سے متاثر ہیں اور اپنے اپنے ٹارگٹ علاقوں میں طالبان طرز کا اِسلامی نظام نافذ کرنا چاہتی ہیں۔ انکے مطابق پاکستانی طالبان افغان طالبان سے کہتے ہیں کہ ہم نے آپکے قربانیاں دی ہیں، آپ لوگوں کے ساتھ مِل کر جنگ لڑی ہے لہذا اب آپ ہمارے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف لڑیں۔ انکے مطابق افغان طالبان کا ایجنڈا گلوبل نہیں لیکن ٹی ٹی پی میں ایسے عناصر ہیں جن کا ایجنڈا گلوبل ہے۔ جس طرح افغان طالبان نے افغانستان سے اتحادی افواج کو نکال کر دوبارہ اقتدار حاصل کیا اور شریعت نافذ کی، اسی طرح تحریک طالبان والے پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اب پاکستان نے افغانستان پر واضح کر دیا ہے کہ تحریک طالبان کی سرپرستی کے نتیجے میں افغان سرزمین غیر محفوظ ہو جائے گی

 

Back to top button