جنرل فیض کے علاوہ کن فوجی افسران کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا؟

پراجیکٹ عمران کے روح رواں اور بنیادی سہولتکار سابق ڈی جی آئی ایس آئی کیخلاف چارج شیٹ سامنے آنے کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا جنرل فیض حمید پہلے تھری سٹار جنرل ہیں جن کیخلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے؟ اور کیا واقعی جنرل فیض حمید کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ مبصرین کے مطابق فوج میں انتقامی کارروائیوں کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ فوج میں کسی بھی آفیسر یا اہلکار کیخلاف صرف اسی وقت کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے جب اس کیخلاف تمام ثبوت اکٹھے کر لئے جاتے ہیں ۔

جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے الزام تراشیوں بارے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے رواں سال 7 مئی کی پریس کانفرنس میں فوج کے خود احتسابی کے نظام کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج میں خود احتسابی کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے، جتنا بڑا عہدہ ہوتا ہے، اتنی ہی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے، ہمیں اپنے احتساب کے نظام پر فخر ہے اور جنرل فیض حمید کو آرمی ایکٹ کی مختلف خلاف ورزیوں پر مکمل ثبوتوں کے ساتھ ہی گرفتار کیا گیا ہے۔ جس کا حکومت یا سیاسی انتقامی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں۔

تحریک انصاف کی قیادت دوبارہ مذاکرات کا ڈھول کیوں پیٹنے لگی؟

 

خیال رہے کہ جنرل فیض حمید پہلے تھری سٹار جنرل نہیں جنہیں فوجی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان سے قبل سابق آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کو بھی اصغر خان کیس میں سیاست میں مداخلت سے باز نہ آنے پر گھر بھجوایا جا چکا ہے جبکہ را چیف کے ساتھ مل کر کتاب لکھنے کی پاداش میں ان سے رینک اور مراعات بھی واپس لی جا چکی ہیں۔

جنرل فیض اور اسد درانی کے علاوہ بھی کئی تھری اسٹار فوجی جرنیل اپنی سیاہ کاریوں پر فوجی قانون کا سامنا کر چکے ہیں۔انڈپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق فروری 2019 میں دو سینیئر افسران کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ان میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو جاسوسی کے الزام میں تین مئی، 2019 کو عمر قید کی سزا سنانے کے علاوہ تمام مراعات، پنشن اور جائیداد ضبط کر لی گئی تھی جبکہ برگیڈیئر رضوان کا غیر ملکی اداروں کے ساتھ روابط کے الزام پر کورٹ مارشل ہوا تھا جس میں انہیں 14 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔

میجر جنرل ظہیر الاسلام کے خلاف سیاچن میں ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی کی گئی اور انہیں 30 جولائی، 1995 کو فوج سے برطرف کر کے تمام مراعات واپس لے لی گئیں تھیں۔

اسی طرح انجینیئر کرنل شاہد کا شمسی ایئربیس پر جاسوسی کا الزام ثابت ہونے کے بعد کورٹ مارشل ہوا اور انہیں فوج سے نکال دیا گیا تھا۔

میجر جنرل تجمل حسین کا بھی کورٹ مارشل ہوا تھا اور انہیں 1995 میں 14 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔

بغاوت کیس میں 1995 میں بریگیڈیئر مستنصر باللہ اور اور چار دیگر افسران کا کورٹ مارشل ہوا، انہیں 14 سال کی سزا ہوئی اور تمام مراعات اور پنشن ضبط کر لی گئی تھی۔

کچھ عرصہ قبل سابق کور کمانڈر منگلا ایمن بلال پر سیاسی الزامات لگے لیکن ان کو جبری ریٹائرڈ کیا گیا، اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی ہوئی۔

اس کے بعد حال ہی میں فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے الزام میں سابق لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین، میجر( ر) عادل راجہ اور حیدر مہدی کا بھی کورٹ مارشل ہوا اور انہیں 14 سال کی سزا سنائی گئی، اور پاکستان میں ان کی تمام جائیداد ضبط کر لی گئی۔

گذشتہ برس 2023 میں نو مئی کے واقعے میں غفلت برتنے کے الزامات پر تقریباً 15 افسران کے خلاف کارروائی ہوئی جس میں سابق کور کمانڈر لاہور، دو میجر جنرل، پانچ بریگیڈیئر اور کرنل، میجر لیول کے افسران بھی شامل تھے جبکہ اب آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل فیض حمید سے بھی نو مئی کے پرتشدد اور بدامنی کے متعدد واقعات سے روابط کے الزامات کی تفتیش ہو رہی ہے ۔

Back to top button