کیا شہباز شریف حکومت کے دن واقعی پورے ہو چکے ہیں؟
ملک اس وقت افواہوں کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ ہر گزرتے لمحے ایک نئی افواہ جنم لے رہی ہے۔ کہیں سے ملک میں ایمرجنسی لگنے کی صدا آتی ہے، کوئی ایمرجنسی پلس کی بات کرتا ہے تو کوئی ساری حدیں پار کرکے مارشل لا لگنے کی سرگوشیاں کرتا ہے۔ رہی سہی کسر ملک کے وزیردفاع خواجہ آصف نے پوری کردی اور قومی ٹی وی چینلز پر انکشاف کیا کہ ملک میں آئینی میلٹ ڈاؤن ہونے جارہا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سیاسی جماعتیں اقتدار کی خاطر آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ پارلیمان ویسے ہی ایک ڈیبیٹنگ کلب بنا ہوا ہے جبکہ عدلیہ کے اپنے اندرونی اختلاف ہی ختم نہیں ہوتے۔ اب تو یہ اندرونی اختلافات بند کمروں اور چیمبرز سے نکل کر زبان زد عام ہوچکے ہیں۔ زیر التوا مقدمات ہر گزرتے مہینے کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں بڑھ رہے ہیں لیکن عدلیہ سیاسی مقدمات میں الجھی ہوئی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مسائل اور اپنے اہداف ہیں۔ وہ ہر صورت سانحہ 9 مئی کے ذمہ داروں کو سزا دلانا چاہتی ہے لیکن دلا نہیں پارہی۔ ہر ادارے کی فرسٹریشن نقطہ عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ ایسے ہی حالات میں ایمرجنسی، ایمرجنسی پلس یا مارشل لا کی سرگوشیاں میں تیزی آ گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے ججز نے عمران کی محبت میں آئین شکنی کیوں کی؟
مبصرین کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کے بعد حکومت، بالخصوص مسلم لیگ ن کی جانب سے عدلیہ پر تنقید میں شدت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ ن کے صدر و سابق وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کھل کر سامنے آگئے ہیں، نواز شریف اور مریم نواز سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیداران کے بیانات سے ایسا معلوم ہورہا ہے کہ جیسے حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوگئی ہے اور ملک کسی آئینی بحران کا شکار ہونے والا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ارشاد عارف کے مطابق پاکستان میں عدلیہ پر تنقید کا رواج رہا ہے، جو فیصلہ حق میں نہ آئے اس میں کیڑے نکالے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہم سے زیادتی ہوئی ہے، لیکن عدلیہ کو بطور ادارہ ٹارگٹ کرنا، ججوں کے نام لے کر ان پر حملہ آور ہونا یا براہِ راست سپریم کورٹ پر حملے کرنا نامناسب ہے۔ ارشاد عارف کے مطابق عدلیہ سے محاذ آرائی کا فائدہ ہمیشہ سے فوجی آمر اٹھاتے آئے ہیں اور ملک میں مارشل لا کا نفاذ ہو جاتا ہے۔
ارشاد عارف کے بقول اس وقت عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی محض ایک بہانہ ہے، دراصل ایک بیانیہ بنایا جارہا ہے چونکہ حکومت کچھ ڈیلیور نہیں کرپارہی اس لئے وہ شہادت کا راستہ اختیارکرنا چاہ رہی ہے کہ اگر ہماری حکومت کسی وجہ سے ختم ہوتی ہے تو کہیں گے کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا، ہم تو بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور بہت کچھ ڈیلیور کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ہمیں عدلیہ نے کمزور کردیا۔سینیئر تجزیہ کار کے مطابق ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلے لے، جو شخص بھی عدلیہ اور ججز پر حملہ آور ہوتا ہے وہ دراصل انصاف کے خلاف ہے۔
دوسری جانب بعص قانونی ماہرین کے مطابق نواز شریف اور مریم نواز نے جو بیانات دیے ہیں وہ بالکل غیر ذمے دارانہ ہیں، سپریم کورٹ کے پاس مکمل انصاف دینے کا اختیار ہے، اور انہوں نے فیصلہ کرکے پی ٹی آئی کو انصاف دیا ہے۔انہوں نے کہاکہ مخصوص نشستوں سے متعلق پہلے فیصلہ دینے والے ججز نے بھی کہاکہ ہمارے فیصلے کی الیکشن کمیشن نے غلط تشریح کی۔ سپریم کورٹ اور ججز سے متعلق ایسے بیان دے کر حکومت کا چلنا مشکل ہوگا۔ایڈووکیٹ مبین قاضی نے کہاکہ ملک میں مارشل لا یا ایمرجنسی کا نفاذ تب کیا جاتا ہے کہ جب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی ہو، اس وقت دونوں ایک پیج پر ہیں، اس وقت حکومت جو بھی فیصلے کررہی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہورہے ہیں، اس وقت ملک میں کسی مارشل لا یا ایمرجنسی کے نفاذ کا راستہ نظر نہیں آرہا، جنرل پرویز مشرف کی لگائی گئی ایمرجنسی کے خلاف کیسز کی سماعت کے دوران عدلیہ نے اس طرح سے آئین توڑنے کا راستہ بند کردیا ہے، اب یہ سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے، اسی وجہ سے بہت سے مواقع آئے لیکن ملک میں مارشل لا کا نفاذ نہیں کیا گیا۔ فوجی قیادت خود کو کسی مشکل میں ڈال کر رسک نہیں لے گی۔تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت کو اس وقت بجلی کے زیادہ بلوں کے باعث عوامی احتجاج، 26 جولائی کو جماعت اسلامی کا دھرنا اور دیگر معاشی و سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے، ایسے میں عدلیہ سے محاذ آرائی کرنا حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے.