نواز شریف آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے خوش ہیں یا ناراض ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ اگرچہ سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی حکومت میں زیادہ سرگرم نظر نہیں آتے لیکن یہ تاثر غلط ہے کہ انہیں موجودہ ہائبرڈ نظام حکومت اور فوج کے وسیع تر کردار پر کوئی اعتراض ہے۔ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ عمرانی فتنے کی سرکوبی اسے جنم دینے والی اسٹیبلشمنٹ ہی کر سکتی ہے لہذا وہ موجودہ نظام حکومت اور اس میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے مطمئن ہیں۔

نون لیگ کے ذرائع کے مطابق، اگرچہ نواز شریف میڈیا کہ سامنے آنے سے پرہیز کرتے ہیں اور براہ راست سیاسی سرگرمیوں سے بھی کافی حد تک دور ہیں، لیکن وہ شہباز شریف کی زیر قیادت وفاقی حکومت اور اپنی بیٹی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی صوبائی حکومت کے مضبوط حامی ہیں۔ پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے بتایا ہے کہ نواز شریف کو موجودہ نظام سے کوئی مسئلہ نہیں اور وہ شہباز شریف حکومت کے پیچھے ڈٹ کر کھڑے ہیں، درحقیقت وہ اس نظام کی حدود کو سمجھتے ہیں اور اس کے کام کے انداز کو بغیر شکایت قبول کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان افواہوں میں کوئی صداقت نہیں کہ نواز شریف سرکاری معاملات میں بااثر قوتوں کے اثر و رسوخ پر ناخوش ہیں اور اسی وجہ سے حکومتی معاملات سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں۔  مسلم لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ وفاق اور پنجاب دونوں حکومتیں نواز شریف کی اپنی ہیں اور وہ دونوں کے لیے نیک جذبات رکھتے ہیں۔

یاد رہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں اگرچہ نون لیگ کی انتخابی مہم کا نعرہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے پر مرکوز تھا، لیکن جب ان کے حلقے سے ابتدائی نتائج آنا شروع ہوئے تو منصوبہ تبدیل کر دیا گیا اور شہباز شریف کو وزارت عظمی کا امیدوار بنا دیا گیا۔ اگرچہ حتمی الیکشن نتائج میں نواز شریف لاہور کے حلقے سے تحریک انصاف کی رہنما یاسمین راشد کے مقابلے میں کامیاب ٹھہرے لیکن وہ مانسہرہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے۔ ایسے میں یہ رائے سامنے آئی کہ اخلاقی طور پر ان کا وزارت عظمی کا امیدوار بننا مناسب نہیں، لہذا شہباز شریف کو دوسری مرتبہ وزیراعظم کا امیدوار بنا دیا گیا۔

تاہم مسلم لیگ نون کے ایک سینیئر رہنما کے مطابق نواز شریف نے اپنے قریبی ساتھیوں کو الیکشن نتائج سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ ان کا وزیراعظم بننے کا ارادہ نہیں اور وہ یہ موقع شہباز شریف کو دینا چاہتے ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف نے الیکشن سے پہلے ہی شہباز شریف کو وزارت عظمی کا امیدوار بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا تو پھر سال 2024 کی الیکشن مہم کے دوران نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنوانے کے دعوے کیوں کیے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ تاثر قائم ہے کہ نواز شریف اپنے بھائی شہباز شریف کے وزیراعظم بننے پر اتنے خوش نہیں جتنے وہ اہنی بیٹی مریم نواز کے وزیراعلی پنجاب بننے پر ہیں۔

مسلم لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنی صحت کی وجہ سے نواز شریف ماضی کے برعکس سیاسی طور پر کم سرگرم نظر آتے ہیں لیکن وقتاً فوقتاً وہ پنجاب حکومت کے سرکاری اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں اور اپنی رہائش گاہ پر بعض غیر ملکی معززین اور سفارتکاروں سے ملاقاتیں بھی کرتے ہیں، جن میں مریم نواز بھی ان کے ہمراہ ہوتی ہیں۔  ذرائع کے مطابق نواز شریف مریم کو خود کو سیاسی طور پر مضبوط بنانے کیلئے سیاسی مشورے بھی دیتے رہتے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف اور مریم نواز دونوں کی حکومتی کارکردگی سے خوش ہیں اور وفاقی حکومت کے روزمرہ معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔

ایک پارٹی عہدیدار نے بتایا کہ تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے شہباز شریف اپنے بھائی پر مکمل اعتماد کرتے ہیں اور ان کے طرز حکمرانی سے بھی مکمل طور پر مطمئن ہیں۔

اگرچہ نواز شریف نے شہباز شریف کے ساتھ وفاقی سطح پر کسی سرکاری اجلاس میں شرکت نہیں کی، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ وزیراعظم اہم قومی امور پر وقتاً فوقتاً اپنے بڑے بھائی سے مشاورت کرتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق، جنرل عاصم منیر کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کرنے میں نواز شریف نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ بھارت کیخلاف ایک بڑی فوجی کامیابی کے بعد جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے کا بھی انہوں نے نواز شریف نے خیرمقدم کیا۔ ویسے بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کا منصوبہ بنانے والے عمرانی فتنے کا توڑ صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہی تھا اور آج بھی اگر اسٹیبلشمنٹ کا حکومتی نظام میں موثر کردار نہ ہو تو عمرانی فتنہ دوبارہ ملک کے لیے مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔

جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ کرانے سےانکار،عمران مزید مشکل  میں کیوں پڑگئے؟

اگرچہ نواز شریف کی مایوسی کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں، لیکن ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف اپنی پارٹی کی موجودہ حکمت عملی اور قیادت سے ہم آہنگ ہیں اور ہائبرڈ طرز حکمرانی کے سول اور عسکری پہلوؤں پر انہیں مکمل اعتماد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی تمام افواہیں عمرانی فتنہ پھیلاتا ہے تاکہ فوجی قیادت اور مسلم لیگ نون کی لیڈرشپ کے مابین غلط فہمیاں پیدا کی جا سکیں۔

Back to top button