ٹرمپ اور نیتن یاہو نے ایران پر حملے کا منصوبہ مشورے سے بنایا

پچھلے ایک ہفتے کے دوران امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اپنائے گئے موقف سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایران پر حملہ امریکہ کی مرضی سے کیا تاکہ اس سے اپنا نیوکلیئر پروگرام ترک کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایرانی نیوکلیئر تنصیبات کو تب نشانہ بنایا گیا جب امریکہ اور ایران کے مابین ایٹمی پروگرام پر مذاکرات جاری تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو نے مل کر ایران پر حملے کا منصوبہ بنایا تاکہ مذاکرات کے دوران ایرانی قیادت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکے لیکن ایسا نہیں ہو پایا اور ایران نے امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات منسوخ کر دیے ہیں۔
معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید اپنے سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ سیاست سے قطعاً ناآشنا ہونے کے باوجود 2016 میں ٹرمپ نے میدان سیاست کی ماہر ترین کھلاڑی ہیلری کلنٹن کو الیکشن مین شکست دے کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ ہیلری کی ناکامی مزید حیران کن اس لیے بھی محسوس ہوئی کیونکہ وہ کلنٹن کی بیوی تھی جنہیں دورِ حاضر کے سیاستدانوں میں سے کامیاب ترین افراد کی صف اوّل میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ جب صدر ٹرمپ مجھ جیسے عقل کل کو پچھاڑ کر الیکشن جیت گیا تو میں نے اس کی کامیابی کی وجوہات جاننے کے لئے چند اہم ترین کتابوں کا بغور مطالعہ کیا۔ مجھے اسکی جیت کی کلیدی وجہ یہ نظر آئی کہ روایتی اشرافیہ کے مقابلے میں نیویارک کا اہم کاروباری فرد ہونے کے باوجود ٹرمپ اپنی گفتگو اور رویے میں عام آدمی سنائی دیتا ہے۔ عوام کے دل جیتنے کے لیے اس نے سیاست دانوں کو بدی کی علامتیں بناکر پیش کیا جو چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کے دل موہ لینے کے بعد اقتدار میں آتے ہیں تو غریب آدمی کی بھلائی کے لیے تسلی کے دو بول بولنے کاتردد بھی نہیں کرتے۔
ٹرمپ نے امریکا کے سفید فام افراد کی اکثریت کے دلوں میں چھپے تعصبات کو بغیر کسی پروا کے برجستہ انداز میں بیان کرنا شروع کردیا۔ دیگر ممالک خاص طورپر لاطینی امریکا کے علاوہ مسلمان ممالک سے امریکا آئے ہر شخص کو اس نے ’جرائم پیشہ‘ بتایا۔ انھیں سستی اجرت پر کام کرتے ہوئے امریکی گوروں میں پھیلی بے روزگاری کا واحد ذمہ دار ٹھہرایا۔ ٹرمپ بے روزگاری کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کی ایپل جیسی بڑی کمپنیوں کو بھی سخت زبان میں لتاڑتا رہا جو اس کی نظر میں سستی اجرت کی خاطر گزشتہ کئی دہائیوں سے چین میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے اس ملک کو امریکا کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی ذمہ دار تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ جب سرمایہ کاری چین منتقل ہونا شروع ہوگئی تو امریکا میں کارخانے بند ہونا شروع ہوگئے۔ بند فیکٹریوں پر مشتمل امریکی ریاستوں کو اسی وجہ سے زنگ آلودہ ریاستیں کہا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ صدر ٹرمپ ‘ڈیپ سٹیٹ’ یا امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی امریکی عوام کی اصل دشمن ٹھہراتا رہا۔ ’ڈیپ اسٹیٹ‘ درحقیقت ریاست کے دائمی اداروں پر مشتمل ہوتی ہے یعنی سول اور ملٹری بیورو کریسی۔ ٹرمپ مصر رہا کہ اس سے پہلے کے امریکی صدور درحقیقت ’ڈیپ سٹیٹ‘ کے کارندے کے طور پر کام کرتے تھے۔ اس لیے وائٹ ہائوس پہنچ جانے کے بعد امریکی عوام کی بھلائی کے لیے کچھ کرنے کے بجائے وہ اسلحہ ساز فیکٹریوں کا دھندا رواں رکھنے کے لیے دوسرے ممالک پر طویل مدتی جنگیں مسلط کردیتے۔ اسلحہ ساز فیکٹریوں کا دھندا رواں رکھنے کی خاطر مسلط کی جنگوں کا ذکر ٹرمپ سے قبل اوباما نے بھی کیا تھا۔ جنگوں کی مخالفت کی بنیاد پر وہ انتخاب جیت گیا۔ اوبامہ نے عراق سے امریکی افواج کو جلد از جلد واپس بلوا لیا۔ لیکن افغانستان میں وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے اور جو سرمایہ غریب امریکی شہری کی فلاح پر خرچ ہو سکتا تھا وہ افغانستان کو جھکانے پر خرچ ہو گیا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اوباما کی ناکامی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرمپ نے ڈیپ سٹیٹ کی مسلط کردہ جنگوں کی اور بھی ذیادہ مذمت شروع کردی۔ افغانستان میں امریکی فوج کو دو دہائیوں تک مسلط رکھنے کی وجہ سے امریکی معیشت کو جو نقصان ہورہا تھا اس پر توجہ دلاتے ہوئے اس نے دوحہ مذاکرات کے ذریعے طالبان کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی جانب سے ہوئے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے امریکی افواج کو افغانستان سے 2021ء میں ذلیل ورسوا ہو کر بائیڈن کی صدارت کے دوران وطن لوٹنا پڑا۔ افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء کے باوجود امریکا کا دوبارہ صدر منتخب ہونے کے لیے چلائی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ مستقل مزاجی کے ساتھ امریکا کی دوسرے ممالک کے خلاف ’خواہ مخواہ‘ لڑی جانے والی جنگوں کی مخالفت کرتا رہا۔ وہ مصر رہا کہ اگر وہ صدر ہوتا تو روس کبھی یوکرین پر حملہ آور نہ ہوتا۔ اسے منتخب ہوئے اب چھ ماہ ہونے والے ہیں لیکن روس اور یوکرین کی جنگ اب بھی جاری ہے اور ٹرمپ کے پاس اسے رکوانے کا کوئی نسخہ نظر نہیں آتا۔
لیکن ٹرمپ کی خوش قسمتی کہ انڈیا نے 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات پاکستان پر میزائلوں کی بارش کر دی۔ پاکستان نے خود پر ہوئے حملے کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بھارت کے رافیل طیارے گرا دیے تو صدر ٹرمپ ’ایٹمی جنگ‘ رکوانے کے لیے متحرک ہوگیا۔ پاک-بھارت جنگ کی طوالت دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں تھی۔ اپنے تئیں ’حساب برابر کرلینے کے بعد‘ دونوں ملک جنگ بندی کو جائز وجوہات کی بنیاد پر تیار تھے۔ ٹرمپ نے کمال ہوشیاری سے اس فضا کا فائدہ اٹھایا۔ اپنے معاونین کو نیند چھوڑ کر پاکستان اور بھارت کے فیصلہ سازوں سے مسلسل رابطے کو مجبور کیا۔ بالآخر جنگ بندی ہو گئی تو روٹھے بچوں کی طرح یہ شکوہ کرنا شروع ہوگیا کہ دنیا اسے ’ایٹمی جنگ‘ رکوانے کا کریڈٹ دینے میں ناکام رہی ہے۔ اسے امن کا دیوتا تو کیا امن کا پیغامبر بھی نہیں مانا جارہا۔ ٹھوس حقائق سے قطع نظر یہ بات جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ پاک-بھارت جنگ کے دوران امریکی صدر واقعتا اس جنگ کو رکوانے کے لیے حیران کن حد تک متحرک رہا۔
کیا ایران کے بعد پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کی باری لگنے والی ہے ؟
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ مئی کے آغاز میں پاک بھارت ’ایٹمی جنگ‘ رکوانے کے لیے مضطرب صدر ٹرمپ اسرائیل کو ایران پر حملے سے کیوں نہیں روک پایا۔ اس کا جواب ڈھونڈتے ہوئے میں یہ نتیجہ نکالنے کو مجبور ہوں کہ ٹرمپ اسرائیل کے ایران پر حملے کے لیے اپنی صدارت سے قبل ہی ذہنی طورپر تیار تھا۔ اس کی حلف برادری کے چند ہی دن بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکا آیا۔ میڈیا میں نیتن یاہو کی واشنگٹن موجودگی کے دوران بات یہ پھیلائی گئی کہ اسرائیلی وزیر اعظم ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنے کا منصوبہ لے کر آیا تھا۔ لیکن ’امن کے پیغامبر‘ ٹرمپ نے اس منصوبے کو مسترد کردیا اور ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنے کے لیے اس سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ سچی بات ہے کہ ابتداً میں بھی ذاتی طورپر اس کہانی کو درست مانتا رہا۔ لیکن اب شواہد سامنے آ چکے ہیں جو مسلسل عیاں کررہے ہیں کہ نیتن یاہو نے ٹرمپ کی رضا مندی کے ساتھ ایران پر حملہ کیا۔