بے نظیر کےاصل قاتل اب بھی افغان طالبان کی پناہ میں ہیں؟
اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کو سولہ برس بیت گئے مگر ان کو شہید کرنے والے اصل مجرم اب بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔اداروں نے اس بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے کہ بینظیر بھٹو کو نشانہ بنانے کے لئے دوسرا دھماکہ کرنے کے لئے آنے والا دہشتگرد اکرام اللہ محسود جس کا تعلق جنوبی وزیرستان کے علاقہ مکین سے ہے اسے کیوں گرفتار نہیں کیا گیا۔تحقیقات اور شواہد بتاتے ہیں کہ اکرام اللہ محسود جو خودکش دھماکہ کرنے والے سعید عرف بلال کے ساتھ بی بی کے بچ جانے کی صورت میں دوسرا دھماکہ کرنے آیا تھا، وہ اس وقت زندہ ہے اور افغانستان میں تحریک طالبان شہریار گروپ کی حفاظت میں ہے۔کیا اسے گرفتار نہ کرنا کس منصوبے کا حصہ تھا؟ سینئر صحافی شکیل انجم نے بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت کی نسبت سے اپنی ایک تحریر میں اس قتل کے حوالے سے کئی سوالات اور سازشوں پر روشنی ڈالی ھے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ وقت نے ثابت کر دیا ہے محترمہ بینظیر بھٹو کو اندرونی اور بیرونی ، اپنوں اور پرائیوں کی سازش کے تحت انتہائی محتاط منصوبہ بندی سے قتل کیا گیا تھا جس کی ابتداء پاکستان پہنچنے سے بہت پہلے ھو چکی تھی ۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کو 16 برس ہوگئےلیکن ان کے قتل کے فوری بعد ہی تحقیقات کا رخ تبدیل کر کے واقعات کو اندھیری گلیوں اور بند راستوں میں دھکیل دیا گیا۔ اس قتل کی منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کرنے والے طاقتور طبقے یا گروہوں نے تمام حقائق مسخ کرکےعوام کے سامنے پیش کرکے سرخرو ہونے کی کوشش کی لیکن وقت نے اصل حقیقت کھول کر سب کے سامنے رکھ دی۔
شکیل انجم کہتے ہیں کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ متنازعہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش کے مرکزی کردار پانچ ملزموں ۔شیر زمان، اعتزاز شاہ، حسنین گل اور قاری عبدالرشید کو گرفتار کر کے انسداد دہشتگری کی عدالت میں پیش کیا ۔ عدالت دس سال کے طویل عرصہ تک مقدمہ کی سماعت کی لیکن استغاثہ ایسے ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا جن کی بنیاد پر انہیں سزا دی جاسکتی ہو۔انجام کار عدالت نے تمام ملزموں کو عدم ثبوت کی بنیاد پر رہا کردیا جس کا مطلب یہ ہے کہ رہا کئے گئے ملزم مجرم نہیں تھے بلکہ مجرم کوئی اور تھے جنہیں تلاش کرنا اور گرفتار کرنا تحقیقاتی اور تفتیشی ٹیموں کی ذمہ داری ہے لیکن کیا انہوں نے اس جانب توجہ دی کہ اصل مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد تحقیقاتی ٹیم نے معاملہ کو متنازعہ بنانے اور تحقیقات کا رخ موڑنے کے لئے یہ دعویٰ کر دیا کہ بینظیر بھٹو کی موت گولی لگنے سے نہیں بلکہ لیور لگنے سے واقعہ ہوئی تھی۔ تحقیقات کے دوران کچھ اہم انکشافات سامنے آئے اور اس دوران کچھ حیران کن واقعات رونما ہوئے جن کی مدد سے کسی حد تک نتیجے پر پہنچا جاسکتا تھا تاہم کسی حتمی اور مستند نتیجے پر پہنچنے کے مجموعی امکانات انتہائی مایوس کن تھے۔ ملکی تاریخ میں ہونے والے دیگر اہم شخصیات کے قتلوں کی طرح بے نظیر بھٹو کے قتل کا معمہ حل ہونے کے امکانات انتہائی کم نظر آ رہے تھے لیکن تحقیقات کا یہ معمہ حل کرتے نظر آ رہے تھے اور اب بھی یہ امید تھی کہ تحقیقات کی جاری رفتار انہیں کسی حتمی نتیجے تک لے جاسکتی ہے۔
شکیل انجم کہتے ہیں کہ پیچیدہ واقعاتی و مادی ثبوتوں سے اخذ شدہ نتائج کچھ مخصوص شخصیات کی طرف اشارہ کرتے تھے لیکن مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ایک رکن کے مطابق کوئی بھی انکشاف انتہائی سخت راہ عمل کا باعث بن سکتا تھا۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے منصوبے کا آغاز 18اکتوبر 2007 کو ہی ہو گیا تھا جب ان سازشی قوتوں نے کارساز میں کئی خودکش حملوں اور سینکڑوں کارکنوں کی قربانیوں کے ذریعے بی بی کا استقبال سے کیا جب منع کرنے کے باوجود وہ جلاوطنی ختم کر کے واپس وطن لوٹی تھیں۔ لیکن راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اس منصوبے کی تکمیل کرکے قتل کے مصمم ارادے کا اظہار کیا۔اس سے قبل دبئی ائرپورٹ پر یو-اے-ای کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی ملاقات اور بی بی کو ان حالات میں پاکستان جانے سے روکنا اس بات کا اشارہ تھا کہ قتل کی یہ سازش عالمی سطح پر تیار کی گئی تھی۔اس کے بعد 26 دسمبر 2007 کی نصف شب اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل ندیم تاج نے بینظیر بھٹو کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی اور لیاقت باغ کے جلسہ میں جانے سےمنع کرتے ہوئے انہیں خطرات دے آگاہ کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان کے حساس ادارے بھی اس منصوبے سے باخبر تھے ۔اس ملاقات میں بی بی کے سیکیورٹی کے انچارج رحمان ملک بھی موجود تھے۔ایک موقع پر رحمان ملک سے جب دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہاں میٹنگ ہوئی اور میں اس میں شامل تھا، گفتگو ساسی معاملات تک محدود رہی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کو لاحق خطرات یا لیاقت باغ راولپنڈی میں اگلی صبح ہونے والےجلسے میں سیکیورٹی معاملات جیسے کوئی امور ملاقات میں زیر بحث نہیں آئے تھے۔ لیکن بعد میں حکومتی سطح پر اس بات کی تصدیق ہو گئی تھی کہ آئی ایس آئی چیف بی بی کو جلسے میں شرکت سے
منع کرنے آئے تھے۔