کیا پنجاب میں راوی، ستلج اور بیاس پر ڈیم بن سکتے ہیں؟

پاکستان میں سیلاب سے آنے والی تباہ کاریوں کے بعد ہر طرف ایک ہی سوال زیر گردش ہے کہ  پاکستان میں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرکے اس سے مستقبل میں فائدہ اٹھانے کا کوئی منصوبہ کیوں نہیں بنایا جاتا۔ یہ سوال محض عوامی بحث کا حصہ نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ جہاں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تنقید بڑھ رہی ہے، وہیں سیاسی رہنما بھی نئے ڈیمز کی تعمیر بارے بیانات داغتے نظر آ رہے ہیں ۔ اس حوالے سے عوامی تاثر یہی ہے کہ اگر پاکستان نے بروقت بڑے ڈیم یا آبی ذخائر بنائے ہوتے تو آج اتنی بڑی تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت جن دریاؤں میں انڈیا کے چھوڑے گئے پانی کی وجہ سے سیلابی صورتحال ہے، کیا وہاں پاکستان قانونی طور پر کسی قسم کا کوئی بڑا آبی ذخیرہ یا ڈیم تعمیر کر سکتا ہے؟

ماہرین کے مطابق  پاکستان اور انڈیا کے درمیان دریاؤں کی تقسیم سندھ طاس معاہدے کے تحت کی گئی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق مشرقی دریاؤں یعنی دریائے راوی، بیاس اور ستلج کے پانی کا مکمل اختیار انڈیا کے پاس ہے جبکہ مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے۔معاہدے میں واضح طور پر درج ہے کہ انڈیا کو مغربی دریاؤں پر صرف چند مخصوص اور محدود منصوبے بنانے کی اجازت ہے، وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ پانی کا بہاؤ متاثر نہ ہو اور یہ منصوبے ’رن آف ریور‘ نوعیت کے ہوں۔اس کے برعکس پاکستان کے پاس مغربی دریاؤں پر مکمل اختیار ہے اور وہ چاہے تو بڑے ڈیم اور ذخائر تعمیر کر سکتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان راوی، بیاس اور ستلج پر کوئی ڈیم تعمیر کر سکتا ہے کیونکہ یہ دریا مکمل طور پر انڈیا کے لیے مختص کیے گئے ہیں اور پاکستان کو ان پر کوئی بڑا ڈیم یا ذخیرہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

سیلاب کے دوران سوشل میڈیا پر بار بار یہ بحث زور پکڑ لیتی ہے کہ پاکستان نے اگر بروقت بڑے ڈیم تعمیر کیے ہوتے تو آج نقصان کم ہوتا۔ تاہم ماہرین اس تصور کو درست نہیں مانتے۔ ان کے مطابق، موجودہ سیلابی کیفیت زیادہ تر ان دریاؤں میں ہے جو بھارت کے حصے میں آتے ہیں۔ قانونی طور پر پاکستان وہاں کوئی ڈیم بنا ہی نہیں سکتا۔ اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل این ڈی ایم اے سندھ سید سلمان شاہ کا کہنا ہےکہ سیلاب کے بعد اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ایسٹرن ریورز یعنی راوی، بیاس اور ستلج پر ڈیمز بنائے جاتے تو نقصان کم ہوتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دریا سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کے حصے میں آتے ہیں اور پاکستان وہاں بڑے ذخائر تعمیر کرنے کا قانونی اختیار نہیں رکھتا۔ دوسری طرف یہ دریا زیادہ تر میدانی علاقوں سے گزرتے ہیں جبکہ ڈیم عموماً پہاڑی علاقوں میں بنائے جاتے ہیں جہاں پانی کو ذخیرہ کرنے کے قدرتی حالات موجود ہوں۔ اس لیے پنجاب میں بڑے ڈیم بنانے کا تصور تکنیکی طور پر بھی کمزور دکھائی دیتا ہے۔ دوسری جانب ماہرین کے مطابق حکومت کو مشرقی دریاؤں پر ڈیم تعمیر کرنےکا کوئی ایڈونچر کرنے کی بجائے اپنے حصے کے مغربی دریاؤں پر بڑے ڈیم بنانے پر توجہ دینی چاہیے، جیسا کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کے منصوبے ہیں۔ ان منصوبوں سے نہ صرف سیلابی پانی پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ بجلی اور آبپاشی کے مسائل بھی بڑی حد تک حل ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو اب سیاست سے بالاتر ہو کر پانی کے مسائل حل کرنا ہوگا ورنہ ہر سال سیلابی پانی ایسے ہی تباہ کاریاں پھیلاتا رہے گا۔

آبی ماہرین کے مطابق فی الوقت پاکستان کے پاس صرف 30 دن کے پانی کے ذخیرے کی گنجائش موجودہے، جبکہ عالمی معیار کے مطابق یہ کم از کم 120 دن ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک ہر سال سیلاب اور خشک سالی دونوں کا سامنا کرتا ہے۔ تاہم حالیہ سیلابی صورتحال کی اصل وجہ یہ ہے کہ دریا کے قدرتی بہاؤ کو متاثر کیا گیا ہے، کناروں پر غیر قانونی آباد کاریاں اور بستیاں بسائی گئی ہیں۔ اگر ان رکاوٹوں کو ہٹایا جائے اور پانی کے قدرتی راستے بحال کیے جائیں تو تباہی کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق حالیہ سیلاب نے ایک بار پھر یہ حقیقت کھول کر سامنے رکھ دی ہے کہ پاکستان کے پاس پانی کے مؤثر انتظام کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مشرقی دریاؤں پر قانونی پابندیوں اور تکنیکی مجبوریوں کے باوجود پاکستان اپنے مغربی دریاؤں پر بڑے ڈیم بنا کر آنے والی تباہ کاریوں کو کم کر سکتا ہے۔ لیکن اصل رکاوٹ سیاسی عزم اور بروقت فیصلہ سازی کی کمی ہے۔ اگر ہم نے پانی کے مسئلے کو محض بیانات اور وقتی تنقید تک محدود رکھا تو ہر سال یہی منظر دہرایا جائے گا: بستیاں ڈوبیں گی، لوگ بے گھر ہوں گے، اور ایک بار پھر یہی سوال دہرایا جائے گا کہ آخر پاکستان سیلابی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے ڈیمز کیوں نہیں بناتا؟

Back to top button