کئی دہائیوں بعد راوی اور ستلج نامی دریا پانی سے کیوں بھر گئے ؟

بھارت کی جانب سے پاکستانی دریاؤں میں پانی چھوڑنے کے بعد پنجاب کے تین اہم دریاؤں یعنی راوی، چناب اور ستلج میں شدید طغیانی آ چکی ہے، جس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے پنجاب میں بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ حکومت پنجاب نے بحران سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے، دوسری جانب موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے چند روز میں مزید بارشیں ہونے والی ہیں جن سے شہری علاقوں میں بھی پانی کا لیول بڑھنے کا خدشہ ہے۔
ایسے میں اہم ترین سوال یہ ہے کے پنجاب میں اچانک سیلاب کیسے آ گیا۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے معروف لکھاری اور تجزیہ کار عامر خاکوانی اپنی تحریر میں بتاتے ہیں کہ سیلاب بنیادی طور پر چناب، راوی اور ستلج دریاوں کی وجہ سےآیا۔ ان تینوں میں یہ پانی انڈیا سے آیا ہے۔ یہ تینوں دریا بنیادی طور پر بھارت کے مشرقی ہمالیہ اور پنجاب، ہماچل پردیش کے علاقوں میں پھیلتے ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں میں شدید بارشیں خصوصا ہماچل پردیش اور مشرقی پنجاب میں ہوئیں۔ اس کے بعد بھارت نے اپنے ڈیموں سے پانی چھوڑا تو بڑے سیلابی ریلے پاکستان کی جانب چلے آئے۔
عامر خاکوانی کہتے ہیں کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس برس کئی دہائیوں کے بعد دریائے ستلج کے علاوہ دریائے راوی بھی پانی سے بھر چکا ہے۔ دراصل پنجاب سے پانچ دریا بہتے ہیں۔ سندھ، چناب، جہلم، راوی اور ستلج ، بیاس کو بھی شامل کر سکتے ہیں گو اس کا زیادہ حصہ انڈیا ہی میں ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان نے راوی، ستلج اور بیاس مکمل طور پر انڈیا کے حوالے کر دیے تھے، یعنی ان کے پانی پر پاکستان کا کوئی حق نہیں رہے گا، جبکہ سندھ، جہلم اور چناب پر مکمل کنٹرول پاکستان کو مل گیا۔ سندھ طاس معاہدے کے بعد راوی اور ستلج قریباً خشک ہو گئے کیونکہ انڈیا نے ان کے پانیوں کو اپنے مکمل کنٹرول میں کر لیا اور ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرنا شروع کر دیا۔ ستلج پر تو بھارت نے اتنا بڑا ڈیم بنا رکھا ہے کہ وہ تین سال کے ستلج فلڈ کو بھی سٹور کر سکے۔ اسی وجہ سے عام حالات میں اور طویل عرصے سے راوی اور ستلج میں کبھی اتنا پانی آیا ہی نہیں، چنانچہ بھارت کو بھی ضرورت نہیں تھی کہ وہ اپنا پانی پاکستان کی طرف بھیجتا۔ لیکن اس برس صورتحال یکسر بدل گئی اور ستلج، بیاس، راوی کے کیچمنٹ ایریا میں بارشوں سے اس قدر پانی جمع ہوگیا کہ بھارتی ڈیمز خطرناک حد تک فل ہوگئے۔ چنانچہ مجبور ہو کر بھارت کو پانی ریلیز کرنا پڑا اور یوں اچانک لاکھوں کیوسک پانی دریائے ستلج اور دریائے راوی میں آ گیا جس نے بحران پیدا کر دیا۔
عامر خاکوانی کے بقول اگلا سوال یہ ہے کہ کیا اسے انڈیا کی آبی جارحیت کہنا درست ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ کہنے کو تو جو مرضی کہہ دیں، لیکن اصولی طور پر اسے آفت ہی سمجھنا چاہیے۔ انڈیا میں باقاعدہ قیامت ٹوٹی ہے اور وہاں پاکستان سے بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ بعض شہروں، خاص کر ہماچل پردیش اور جموں وغیرہ میں تو دو تین دن مسلسل شدید بارش ہوتی رہی۔ اودھم پور میں چھ سو ملی میٹر بارش ہوئی۔ لاہور، کراچی میں ڈیڑھ سو ملی میٹر بارش پر شہر دریا بن جاتے ہیں۔ چنانچہ اندازہ لگائیں کہ جب بھارتی شہروں میں اس سے چار گنا زیادہ بارش پورا دن برستی رہے تو کیا حال ہوگا؟ اودھم پور میں تو بیراج بھی تباہ ہوا، اور انسانی جانیں بھی گئیں، جموں کے علاقہ میں بھی بارشوں سے بڑے نقصانات ہوئے کیونکہ وہاں ڈیم خطرناک حد تک بھر گئے۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت نے پاکستان کو بروقت دریائے ستلج اور دریائے راوی میں پانی چھوڑنے کا بتا دیا تھا۔ سٹینڈرڈ پروسیجر کے مطابق دو دن پہلے بتایا گیا اور اسی وجہ سے پاکستان میں جانی نقصان کم ہوا، عامر خاکوانی نے بتایا کہ ہماری انتظامیہ نے بہت سے دیہات خالی کرا لیے تھے، ورنہ تو ہمارے لوگ سوئے ہوتے جب اچانک سیلاب کا ریلا ان کے سر پر جا پہنچتا، ایسے میں لوگوں کو بچ نکلنے کا موقع نہ ملتا۔ بہت سارے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ہمیشہ سندھ میں سیلاب آتے ہیں، لیکن اس مرتبہ پنجاب میں سیلاب کیوں آیا؟ عامر خاکوانی کے مطابق اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سندھ کا کیچمنٹ ایریا مختلف ہے۔ اس کا روٹ بھی خاصا مختلف ہے۔ دریائے سندھ کا کیچمنٹ ایریا زیادہ تر گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور مشرقی افغانستان میں ہے۔ اس حصے میں بارشیں اس بار اتنی شدید نہیں ہوئیں جتنی انڈین مشرقی پنجاب میں ہوئیں۔ چنانچہ اس وقت دریائے سندھ میں اس سال غیر معمولی طغیانی نہیں ہے۔ ایک اور فیکٹر بھی ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم تربیلا دریائے سندھ ہی پر قائم ہے جو سات ملین ایکڑ فٹ پانی جمع کر سکتا ہے۔ دریائے سندھ کے پانی کا بڑا حصہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے گلیشیئرز اور برف باری سے آتا ہے۔ یہ پانی سیدھا تربیلا کے ریزروائر میں جمع ہوتا ہے۔ یعنی جو بھی پانی دریائے سندھ میں اپ سٹریم گلگت، چلاس، دیامر وغیرہ سے آتا ہے، وہ سب پہلے تربیلا میں پہنچتا ہے۔ یوں سندھ میں آنے والی طغیانی یا سیلاب کا بڑا حصہ تربیلا روک لیتا ہے۔
