گھروں میں پانی گھسنے کے بعد لاہور کے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز فل

لاہور میں حالیہ سیلاب کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے ایک بار پھر حکومتی بد انتظامی اور نااہلی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سیلابی صورتحال کی وجہ سے بے گھر، بے یار و مددگار اور بے یقینی کے شکار لاہور کے مکین عارضی رہائش کیلئے درربدر بھٹکتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے بڑی آبادی متاثر ہونے کے بعد عوام اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کر بنائے گئے گھروں کو چھوڑ کر ہوٹلوں میں رہائش اختیار کرنے پرمجبور ہیں۔ تاہم سیلاب متاثرہ عوام کو اس حوالے سے بھی دوہری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ طلب بڑھنے کی وجہ سے لاہور کے اکثریتی ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز فل ہو چکے ہیں جبکہ بعض ہوٹلز مالکان نے کمروں کے کرایوں میں بھی ہوشربا اضافہ کر دیا ہے جس کے بعد وہ کھلے آسمان تلے شب و روز گزارنے پر مجبور ہیں۔
خیال رہے کہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں گذشتہ دو روز کے دوران دریائے راوی کا پانی اُن آبادیوں میں داخل ہوا ہے جو دریا کی پُرانی راہ گزر کے دائیں بائیں موجود تھیں۔ حکام کے مطابق لاہور کی کل 9 آبادیاں سیلابی پانی کی زد میں آئیں جن میں پارک ویو ہاؤسنگ سوسائٹی،محفوظ گارڈن، تھیم پارک، خوشی پارک، مرید وال، طلعت پارک، شفیق آباد اور مانگا منڈی کے علاقے شامل ہیں۔ سیلابی پانی کی وجہ سے علاقہ مکین اپنے گھر بار چھوڑکر ہوٹلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سیلاب کے باعث جن افراد کو اپنے گھر چھوڑنا پڑے ہیں اُن کی تین اقسام ہیں۔ ایک وہ جو ہوٹلوں میں رہنا پسند کر رہے ہیں، دوسرے وہ جن کے رشتہ دار یا دوست لاہور میں ہی رہتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو سرکاری بندوبست جیسا کہ سرکاری سکولوں کی عمارتیں وغیرہ جہاں عارضی رہائش کے انتظامات کیے گئے ہیں میں رہ رہے ہیں۔ اگرچہ حکومت نے بعض مقامات پر عارضی رہائش کے انتظامات بھی کر رکھے ہیں، تاہم پوش ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے رہائشی ہوٹلوں میں ٹھہرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے لاہور کے تمام چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں کمرے فل ہو چکےہیں۔ اس حوالے سے سیلاب کی زد میں آنے والی پارک ویو ہاؤسنگ سوسائٹی کے ایک رہائشی اشعر علی نےبتایا کہ ’جمعرات کی رات کو جب پانی سوسائٹی کے اندر داخل ہونا شروع ہوا تو اس وقت ہر طرف بھگدڑ مچ گئی۔‘ انتظامیہ کی طفل تسلیوں کے باوجود انھوں نے اپنی فیملی اور بچوں کو گاڑی میں بٹھایا اور سوچا کسی ہوٹل میں چلتے ہیں۔‘اشعر نے اپنے اہلیہ اور بچوں کو ساتھ لیا اور شہر کے مختلف ہوٹلوں کے چکر لگانا شروع کر دیے لیکن انہیں کمرہ نہیں مل رہا تھا۔ وہ جس ہوٹل میں بھی گئے وہاں پتا چلا کہ تمام کمرے تو بُک ہو چکے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ تین چار ہوٹلوں کے بعد انھیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا کہ انھوں نے نکلنے میں کچھ زیادہ ہی تاخیر کر دی ہے۔ تاہم بعد ازاں بڑی سفارشوں کے بعد وہ ایک گیسٹ ہاؤس میں کمرہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس حوالے سے فیصل ٹاؤن لاہور میں واقع ایک گیسٹ ہاؤس کے مالک عارف خان نے بتایا کہ اس وقت لاہور کے اکثریتی ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز مکمل پیک ہیں کیونکہ یہ ایک رات کا مسئلہ نہیں ہے۔ جب تک بے یقینی ختم نہیں ہوتی یہ لوگ ہوٹلوں میں ہی ٹھہریں گے۔‘ ’عام حالات میں تو ہوتا ہے کہ جو آج ٹھہرا ہوا ہے وہ کل چیک آؤٹ کرے گا۔ تاہم سیلاب کی وجہ سے لوگوں نے غیر معینہ مدت کیلئے کمرے کرائے پر لے رکھے ہیں کوئی چیک آؤٹ کی بات ہی نہیں کرتا اس لئے ان کیلئے نئے لوگوں کو ایڈجسٹ کرنا مشکل ہو چکا ہے۔
ناقدین کے مطابق شہر میں ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں کمرے نہ ملنا، لوگوں کا رشتہ داروں کے گھروں یا سرکاری سکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا، اور کئی متاثرین کا سڑک کنارے ٹینٹ لگا لینا پنجاب حکومت کیلئے شرمناک اور باعث افسوس ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ پنجاب میں آنے والے سیلاب نے یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ ہمارے ادارے اور حکومتی انتظامیہ بحرانوں سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ اگرچہ بارش اور سیلاب فطری آفات ہیں، مگر ان کے بعد پیدا ہونے والی انسانی مشکلات دراصل انتظامی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ صوبائی دارالحکومت کی موجودہ صورتحال میں اصل سوال یہ ہے کہ حکومت اور انتظامیہ اس وقت کہاں ہے؟ کیا سیلاب سے نمٹنے کیلئے پہلے سے کوئی حکومتی پلاننگ موجود تھی؟ ریلیف کیمپس، عارضی رہائش گاہیں یا متاثرین کو پناہ فراہم کرنے کے لیے کوئی واضح حکمتِ عملی نظر کیوں نہیں آ رہی؟ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور دیگر حکومتی ادارے محض وقتی بیانات اور فوٹو سیشن تک محدود کیوں ہیں۔ عوام کا سڑک کنارے ٹینٹس لگاکر معصوم بچوں اور خواتین کے ہمراہ کھلے آسمان تلے رات گزارنا محض ایک انسانی المیہ نہیں بلکہ ریاستی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
