طالبان حکومت کی جانب سے TTP کیخلاف تحقیقات شروع

 

 

 

بالاخر افغانستان کی طالبان حکومت نے تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے بلوچ شدت پسندوں کو دہشت گردی کی ٹریننگ دے کر پاکستان بھیجنے والے نیٹ ورک کی تلاش شروع کر دی ہے۔ افغان طالبان حکومت نے یہ فیصلہ حکومت پاکستان کی جانب سے اس انکشاف کے بعد کیا کہ بلوچستان میں مارے گئے 30 میں سے 18 دہشت گردوں کا تعلق افغانستان کے مختلف شہروں سے تھا۔

 

باخبر ذرائع کے مطابق اس پاکستانی دعوے کی تصدیق بلوچستان میں پاکستانی فوج کیساتھ ایک بڑے مقابلے میں ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی لاشوں سے ہوئی جن کو افغانستان بھجوایا گیا تھا جہاں ان کے افغان شہری ہونے کی تصدیق ہو گئی۔ اس واقعے کے بعد طالبان حکومت نے اظہار شرمندگی کرتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان کے اس نیٹ ورک کی تلاش شروع کر دی ہے جو کہ بلوچستان میں پاکستان مخالف قوم پرستوں کو بھرتی کر کے ٹریننگ دے رہا ہے۔

 

ذرائع کے مطابق چند ہفتے قبل افغانستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے تحریک طالبان کے جنگجوؤں کے ساتھ مل کر ایک خفیہ راستے سے بلوچستان میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی۔ تاہم بروقت اطلاع پر پاکستانی فضائیہ نے ڈرون حملے کرتے ہوئے 30 سے زائد جنگجوؤں کو جہنم رسید کر دیا۔ جب لاشوں کی شناخت کی گئی تو 30 میں سے 18 کا تعلق افغان صوبوں غور، میدان ، رودگ، ہنگر ہار، غزنی اور دیگر علاقوں سے تھا۔ ذرائع کے مطابق ان لاشوں کو ایک وفد کے ہمراہ افغانستان بھیجا گیا جس نے افغان حکام کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ مارے جانے والوں کے افغان شہری ہونے کی تصدیق کے بعد افغان طالبان حکومت نے پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف اپنی بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔

 

افغان طالبان حکومت کے وزیر دفاع مولوی یعقوب نے بی بی سی پشتو سروس کو بتایا کہ پاکستان میں عدم استحکام کا براہ راست اثر افغانستان پر پڑتا ہے لہذا ہم دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش میں پیش رفت ہوئی ہے۔ ادھر افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے اپنی وزارت داخلہ کو پاکستان میں ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے حوالے سے تحقیقات کرنے کا حکم دے دیا ہے تا کہ سراغ لگایا جا سکے کہ انہیں ئی ٹی پی کے کس گروپ نے بھرتی کیا اور ان کی تربیت کہاں ہوئی۔ یہ بھی پتہ لگایا جائے گا کہ انہیں جدید اسلحہ کس نے فراہم کیا۔ اسکے علاوہ افغان حکومت نے افغانستان میں موجود پاکستان مخالف دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو تلاش کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔

 

یاد رہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان 2022 میں افغانستان میں دوبارہ برسر اقتدار آ گئے تھے۔ کابل میں اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد افغان طالبان نے مختلف افغان جیلوں میں موجود تحریک طالبان پاکستان کے سینکڑوں کمانڈرز کو رہا کر دیا تھا جو فوجی آپریشن کی وجہ سے افغانستان فرار ہو کر اتحادی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے تھے۔ ان میں سے کچھ ٹی ٹی پی کمانڈرز پاکستان واپس آگئے اور باقی نے افغانستان میں رہتے ہوئے اپنے اپنے گروہ دوبارہ منظم کرنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی شروع کر دی۔ پچھلے تین برس سے پاکستان اور افغانستان کے مابین سب سے بڑا اختلاف اس بات پر ہے کہ کابل کی افغان حکومت تحریک طالبان کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں حالانکہ وہ مسلسل پاک افغان سرحدی علاقوں میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایسے میں یہ پہلا موقع ہے کہ افغان طالبان حکومت نے پاکستان کی جانب سے ثبوت پیش کیے جانے کے بعد باقاعدہ یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے اس نیٹ ورک کو تلاش کرے گی جو کہ بلوچستان میں دہشت گردی کروانے کے لیے افغان شہریوں کو تربیت دے کر پاکستان بھیج رہا ہے۔

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!