کیا آرٹیکل 63 اے کا اطلاق کپتان کا اقتدار بچا سکتا ہے؟
وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے اپنے منحرف اراکین قومی اسمبلی کو نااہل کروانے کی انوکھی سٹریٹجی تیار کرلی ہے جسے قانونی حلقے سراسر غیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف میں جہانگیر ترین گروپ کے کھل کر سامنے آنے کے بعد اب وزیراعظم نے اپنے رفقاء سے مشورے کے بعد یہ طے کیا ہے کہ اپنے خلاف ووٹ پڑنے کے امکان کو ختم کرنے کے لیے ووٹنگ کے دن حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والا کوئی رکن اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہو گا۔ لیکن اگر اسکے باوجود کوئی حکومتی رکن ووٹ ڈالنے جائے گا تو اس کے خلاف فوری طور پر نااہلی ریفرنس دائر کر دیا جائے گا اسپیکر قومی اسمبلی اس سے ووٹنگ میں حصہ لینے سے روک دے گا۔
تاہم اپوزیشن ذرائع کا موقف ہے کہ حکومت کی جانب سے بنائی گئی یہ سٹریٹیجی سراسر غیر آئینی ہے اور اس کا واحد مقصد گند ڈالنا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اپنے ممبران قومی اسمبلی کو اجلاس میں جانے سے روک کر وزیراعظم خود یہ واضح کر رہے ہیں کہ ان کو اپنے اراکین اسمبلی پر اعتماد نہیں اور اراکین بھی ان پر اعتماد نہیں کرتے، لہٰذا اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک ووٹنگ سے پہلے ہی کامیاب ہونے جا رہی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کا ہتھیار کپتان کے اقتدار کو بچا سکتا ہے یا نہیں؟
حکومتی منصوبے کے مطابق عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے روز قومی اسمبلی میں صرف بابراعوان جائیں گے جو منحرف حکومتی اراکین کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے انکے خلاف ریفرنس موقع پر ریفرنس سپیکر اسمبلی کو داخل کروائیں گے۔
یعنی کسی بھی حکومتی رکن کی جانب سے محض ایوان میں پہنچنے کی پاداش میں وہاں موجود حکومتی نمایندہ ڈاکٹر بابر اعوان فوری طور پر اس کے خلاف آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر سپیکر اسمبلی سے اسے ووٹ کا حق نہ دینے کی درخواست کرے گا جس پر سپیکر عمل درآمد کرتے ہوئے حکومت کی منشاء کے مطابق فیصلے کرے گا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کو ملک کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ یوسف رضا گیلانی کے معاملے میں ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ سینیٹ چیئرمین کے الیکشن کے موقع پر چئیرمین نے انکے حق میں ڈالے گے 6 ووٹ مسترد کر دیے تھے اور عدالت یہ کہہ کر فارغ ہو گئی تھی کہ کسی بھی پارلیمانی کارروائی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
قانونی ماہرین کے خیال میں اسپیکر قومی اسمبلی اس روز جو بھی فیصلہ کرے گا اسے آئینی تحفظ حاصل ہو گا پھر چاہے وہ معاملہ سپریم کورٹ چلا جائے جیسا کہ یوسف رضا گیلانی بمقابلہ صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ الیکشن میں ہوا تھا۔ دوسری جانب اس گھمبیر صورت حال میں تحریک انصاف کے منحرف اراکین پر تکیہ کرنے کی بجائے اپوزیشن اتحاد نے حکومت کی اتحادی جماعتوں پر فوکس کر لیا ہے کیونکہ اتحادی اراکین پر نا اہلی کہ شق لاگو نہیں ہوتی۔
اپوزیشن کی ہرچال کے مقابلے کیلئے تیار ہوں
حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کے فیصلے کے بعد کپتان کی بجائے پہلے سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی وکالت کرنے والوں کا موقف بھی درست ثابت ہوگیا ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک عدم کے دن تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے اراکین قومی اسمبلی ایوان میں موجود نہیں ہوں گے۔ بابر اعوان نے کہا کہ اجلاس میں صرف قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر ہی موجود ہوں گے، میرا ووٹ نہیں ہے اس لیے میں بھی جاؤں گا۔
وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے اجلاس معمول سے ہٹ کر کسی اور جگہ بلائے جانے کا امکان ہے کیونکہ جس ایوان میں اجلاس ہوتے ہیں اس کی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے قومی اسمبلی میں ووٹوں کی مناسب تعداد کے اپوزیشن کے دعوے پر بابر اعوان نے ماضی کی مثالوں کا حوالہ دیا جہاں حکومت نے پارلیمانی ووٹوں میں اپوزیشن کو شکست دی تھی کیونکہ حکومت کو ’نمبر گیم‘ میں برتری حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس 189 ووٹ ہیں اور اپوزیشن کے پاس 162 ووٹ ہیں، ہمارے کارڈز ہمارے پاس ہیں اور اپوزیشن کو ناکام بنانے کے لیے ہیٹ ٹرک کی تیاری مکمل ہے۔ اس سے قبل سپیکر ہاؤس اسلام آباد میں تحریک انصاف کا اہم ترین اجلاس ہوا جس میں حکومت نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کا اطلاق کرتے ہوئے منحرف حکومتی ارکان کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس اجلاس میں موجودہ سیاسی صورتحال، اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد اور قومی اسمبلی اجلاس بلانے سے متعلق حکمت عملی پر تفصیلی غور کیا گیا، ملاقات میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے لائحہ عمل مرتب کیا گیا جس کے تحت ووٹنگ والے دن حکومتی ارکان کو اجلاس میں نہ جانے کی ہدایات جاری کی جائیں گی۔ تحریک عدم اعتماد کے دن قومی اسمبلی ایوان میں حکومت کے صرف ایک رکن مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان شریک ہوں گے، آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف حکومتی ارکان کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاۓ گی،
ووٹنگ والے دن پارلیمان میں آنے والے حکومتی ارکان کیخلاف چیئرمین تحریک انصاف سپیکر قومی اسمبلی کو نااہلی ریفرنس کے حوالے سے فوری خط بھی تحریر کریں گے۔ جس کے بعد سپیکر اسد قیصر آئین کے آرٹیکل 63 اے کی شق کے تحت منحرف حکومتی ارکان کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے اور یوں اپوزیشن کی نمبرز گیم بری طرح متاثر ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس حکومتی سٹریٹجی کی کی کیا کاونٹر سٹریٹیجی تیار کرتی ہیں؟4