پاکستانیوں کے ساتھ 17 کروڑ روپے کا فراڈ کرنے والے چینی گرفتار

اسلام آباد ایف آئی اے کے سائبر کرائم سیل نے چند ہفتوں کے دوران چینی باشندوں کے خلاف 17 کروڑ روپے مالیت فراڈ کے تین مقدمات درج کیے ہیں۔ اس فراڈ کا مرکزی ملزم برطانیہ کے بارکلے بینک کا ملازم ہے جس نے بینک کا نام غلط طور پر استعمال کیا۔ اسنے پاکستان سٹاک ایکسچینج اور چین سٹاک ایکسچینج کے نام پر فراڈ کر کے لوگوں سے غلط طور پر رقوم بینک میں جمع کروائیں اور پھر انہیں ہڑپ کر گیا۔

ایف آئی اے سائبر کرائم کی عدالت میں جمع کروائی گئی تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اور پاکستان کے شہریوں نے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس کے ذریعے تشہیر کی کہ وہ پاکستان سٹاک ایکسچینج اور چین میں ایک آن لائن سرمایہ کاری ایپ کے زریعے سے کرنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس ایپ کی واٹس ایپ گروپوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر کی گئی اور غلط طور پر دعوی کیا گیا کہ یہ بین القوامی سٹاک مارکیٹ اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے کے لیئے قانونی کمپنی ہے۔ تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’آئی جی آئی ایل‘ نامی ایپ پر ایک جعلی سرمایہ کاری پروگرام کے ذریعے سے سرمایہ کاروں کو راغب کیا جاتا تھا کہ وہ پاکستان اور چین کی مارکیٹ میں اچھا منافع مل کما سکتے ہیں۔ یوں شکایت کنندگان سے بینکوں میں پیسے جمع کروائے گئے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ کہانی ایک ایسی جعلسازی کی ہے جس کے حوالے سے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے 41 سے زیادہ درخواستیں موصول ہونے کے بعد کم از کم تین مقدمات درج کیے ہیں۔ ان درخواستوں میں متاثرین نے مجموعی طور پر 17 کروڑ روپے کے نقصان کا دعویٰ کیا ہے۔ ایف آئی اے نے اپنی تفتیش کے دوران آن لائن فراڈ کے الزام میں دو چینی شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔ 25 جنوری 2025 کو اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جج محمد عباس شاہ نے ملزمان کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا جس کے بعد ایک روز کی توسیع بھی دی گئی۔ ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے اس کیس پر سماعت کے دوران عدالت کو بتایا ہے کہ ایجنسی نے مبینہ طور پر دھوکے اور فراڈ سے حاصل کردہ 50 لاکھ روپے ریکور کر لیے ہیں جبکہ ابھی مزید لاکھوں روپے کی ریکوری ہونا باقی ہے۔دوسری طرف گرفتار چینی شہریوں کے وکیل رضوان عباسی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ان کے ’دونوں کلائنٹ بے گناہ ہیں جنھیں پھنسایا گیا ہے اور اس فراڈ کے اصل ملزمان فرار ہو گئے ہیں۔

خیال رہے کہ 29 نومبر 2024 کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے خبردار کیا تھا کہ ’آئی جی آئی ایل‘ ایک غیر قانونی ٹریڈنگ پلیٹ فارم ہے جو سوشل میڈیا اور واٹس ایپ کے ذریعے سٹاک ایکسچینج اور بین الاقوامی سٹاک مارکیٹ میں بھاری منافع کا وعدہ کرتی ہے۔ اسی طرح ’آئی جی آئی سکیورٹیز‘ نامی کمپنی نے بھی نشاندہی کی تھی کہ گوگل پلے سٹور پر موجود آئی جی آئی ایل ایپ جعلسازی میں ملوث ہے اور اس کا ان کی کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس کیس میں ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر فراڈ مکمل منصوبہ بندی سے کیا گیا ہے جس میں زیادہ تر چینی شہری شامل ہیں جنھوں نے اپنے ساتھ پاکستانی شہریوں کو بھی شامل کیا۔ تفتیشی افسر کے مطابق ’سب سے پہلے تشہیر کی گئی اور انتہائی غیر معمولی منافع کا کہا گیا ہے جو کہ ناقابل یقین ہے۔‘

’کچھ لوگوں کو سرمایہ کاری کرنے پر ابتدا میں معمول سے کئی گنا زیادہ منافع دیا گیا۔ جن لوگوں کو منافع دیا گیا ان کو طریقے کے ساتھ اپنا سہولت کار بنایا گیا تھا کہ وہ اس منافع کا دوسروں سے ذکر کرتے اور ان لوگوں کو بھی سرمایہ کاری کے لیے قائل کریں۔‘

تفتیشی افسیر کے مطابق ملزمان نے ’کئی پاکستانیوں کو ملازمتیں دیں اور ان کی ذمہ داری لگائی کہ وہ ان کے لیے سرمایہ کاری لائیں۔ یہ کام ملازمتوں کے علاوہ کمیشن پر بھی کروایا جاتا تھا۔ جو کمیشن دیا جاتا وہ بھی غیر معمولی تھا۔‘

ایف آئی اے کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ’جو بھی دھوکے میں آ کر سرمایہ کاری کرتا اس کو پہلے، دوسرے، تیسرے ماہ منافع دیا گیا جس سے ان کی شہرت بڑھی اور مزید سرمایہ آتا تھا۔‘ انھوں نے بتایا کہ ملزمان نے ’محتاط رہتے ہوئے بینکوں میں موجود سرمایے کے ذریعے کرپٹو کرنسی خریدی۔‘

تفتیشی افسر کے مطابق کچھ کسیز میں پتا چلا ہے کہ بینک اکاؤنٹ پاکستانیوں کے ذریعے کھلوائے جاتے تھے۔ ’جب وہ بڑی حد تک سرمایہ کاری حاصل کر لیتے تو پہلا کام کرپٹو کرنسی خریدنے کا کرتے تھے اور یہ کام وہ اپنے پاکستانی ساتھیوں کے ذریعے کرواتے۔ اس کے بعد ایپ اور ویب سائٹ انٹرنیٹ پر موجود رہنے کے باوجود عملی طور پر غیر فعال ہوجاتی تھی۔ تفتیشی افسر کے مطابق یہ ایپ اور ویب سائٹ ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کروائی گئی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا کوئی دفتر نہیں ہوتا تھا اور سرمایہ کاری کر کے دھوکے کا نشانہ بننے والے کبھی بھی اس میں ان کے دفتر نہیں گئے اور نہ ہی ملاقات کی۔ جو کچھ بھی ہوا آن لائن ہوا تھا۔

وحید الرحمن ایڈووکیٹ کم از کم 41 متاثرین کے وکیل ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان 41 افراد سے کم از کم 109 ملین روپے کا فراڈ ہوچکا ہے اور اس کے علاوہ اب بھی کئی لوگ رابطے کر رہے ہیں۔ ان کے بقول متاثرین کی تعداد سینکڑوں میں بھی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فراڈ کا آغاز گذشتہ سال کے وسط میں بیک وقت پورے ملک میں ہوا تھا۔ ’لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ پاکستان اور چین کے علاوہ مختلف بین الاقوامی سرمایہ کاری اور منافع کے مواقع ہیں۔ اس کے لیے باقاعدہ بینک میں اکاؤنٹ کھولے گئے تھے۔‘ وحید الرحمن کا کہنا تھا کہ ’لوگوں سے کہا جاتا رہا کہ آپ لوگ بینک میں پیسے جمع کروائے جس کی وجہ سے بھی لوگ اعتماد کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بینک میں کمپنی کے اکاؤنٹ میں پیسے جمع کروانے سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا مگر انھوں نے یہاں ہی سے فراڈ کی بنیاد رکھی تھی۔‘

وحید الرحمن کا کہنا تھا کہ اس فراڈ میں تین مقدمات تو درج ہوچکے ہیں مگر مزید کئی لوگوں کی درخواستیں جو کہ ایک ہی نوعیت کی ہیں، ان پر ابھی تک باقاعدہ مقدمات درج نہیں ہوئے ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق وصول درخواستوں پر تفتیش ہو رہی ہے اور تفتیش کے بعد مقدمات درج کرنے کے حوالے سے فیصلہ ہوگا۔

Back to top button