حساس معاملات کو سیاسی فائدوں کے لیے نہیں اٹھانا چاہیے

سینیٹ اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے اپوزیشن کو تجویز دی کہ ایسے معاملات پر بات نہ کریں جس سے قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچے، ملک کو اس وقت قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس سے متعلق ملکی پالیسی پر تبادلہ خیال کے لیے سینیٹ اجلاس ہوا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں انہوں نے بتایا کہ اس کا دورانیہ دوپہر 12 سے شام 5 بجے تک رکھا گیا ہے تاکہ تمام اراکین اظہار خیال کرسکیں۔اجلاس کے آغاز پر کچھ سینیٹرز کی ذاتی وجوہات پر عدم شرکت کی درخواست منظور کی گئی اور افغانستان میں حملے کے نتیجے میں بچوں کی موت کی مذمت بھی کی گئی۔اس موقع پر سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ہمارا جی ڈی پی مشکل سے 300 ارب ڈالر ہے، ہمارے کیسز 30 ہزار سے تجاوز کرگئے ہیں اموات 700 کے قریب ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قرضوں میں ڈوبے ہمارے ملک میں ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں جتنے بڑے بحران کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہہ پالیسی بنانے میں سب سے پہلے توجہ کے مستحق یومیہ اجرت کمانے والے، ریڑھی لگانے والے رکشے والے لوگ ہوتے ہیں، وزیر اعظم عمران خان فلاحی سوچ رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی حکمت عملی وبا سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ غریب عوام کی بھوک بھی دور کرنے پر مبنی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ حکومت نے تمام صوبوں کے ساتھ تعاون کیا ہے اور اس کسی کے ساتھ ’امتازی رویہ‘ نہیں روا رکھا۔ان کا کہنا تھا کہ وفاق، کورونا وائرس بحران پر سیاست نہیں کرنا چاہتا اور اپوزیشن الزام تراشیاں کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے تمام صوبوں کو حفاظتی سامان اور رقم فراہم کی ہے۔شبلی فراز نے اپوزیشن کو تجویز دی ہے کہ حساس معاملات کو سیاسی فائدوں کے لیے نہ اٹھائیں۔
انہوں نے اپوزیشن کو تجویز دی کہ ایسے معاملات پر بات نہ کریں جس سے قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچے، ملک کو اس وقت قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔سینیٹر شبلی فراز نے اپوزیشن سے وبا سے نمٹنے کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کے بارے میں بتانے کا کہا۔سینیٹ اجلاس کے دوران تنقید کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے متعدد سوالات اٹھائے۔ان کا کہنا تھا کہ ’کیا اپوزیشن کا کوئی اپنا پلان ہے، کیا وہ کرفیو چاہتے ہیں، جب اپوزیشن نے اجلاس طلب کیا تو انہوں نے شرکت کیوں نہیں کی‘۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو خود کو ’سیاسی انتقام کا نشانہ‘ ظاہر کرنے کے بجائے ان سوالات کا جواب دینا چاہیے۔
ان سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان نے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جس روز پاکستان میں وبا پھیلی تو ایک افراتفری پھیل گئی، 4 مارچ کو جس طرح اجلاس ختم کیا گیا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔مشاہداللہ خان نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ اپوزیشن کے کہنے پر اجلاس بلائے گئے حکومت کو یہ اجلاس خود بلانے چاہیے تھے۔انہوں نے کہا کہ صرف کورونا وائرس کے بارے میں بات کرنے کا کہا گیا اب تو بچے بچے کو معلوم ہے کہ کورونا کیا ہے، وزیراعظم نے کورونا وائرس سے متعلق اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت سے اپیل ہے کہ قومی اتفاق رائے پیدا کرے، کشمیر کمیٹی کے چیئرمین پر 13 لوگوں نے واک آؤٹ کیا جو تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔انہوں نے کہا ’حکومت شہباز شریف سے، بلاول بھٹو زرداری اور سراج الحق سمیت دیگر رہنماؤں سے بات کریں، ہمیں اپنا دشمن کیوں سمجھتے ہیں‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’اسی وبا میں ختم نبوت کی بات ہوئی، ان معاملات کو چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے، اپنے ایمان کو وزن دیں اور اس مسئلے کو مت چھیڑیں‘۔انہوں نے کہا کہ ’شکور نامی قادیانی آپ کی شکایتیں لگاتا ہے تو آپ کی ٹانگیں کانپتی ہیں، تل ابیب میں مودی کسی قریشی کو گلے لگاتا ہے آپ اس کو کیوں نہیں سمجھتے، اس مسئلے کو کیوں اٹھارہے ہیں‘۔انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ اس مسئلے پر سب کا اتفاق ہے اور ہمارا ایمان ہے، اس مسئلے کو چھیڑنے سے گریز کریں‘۔
سینیٹ اجلاس کے دوران متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)کے سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ ہم جب دیکھتے ہیں کہ کیا ایک عام فرد کو صحت کی سہولیات میسر ہیں تو ایسا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ جو لاک ڈاؤن ہے کہ اسے ہم نے پب جی یا لڈو کھیل کر گزارنا ہے یا کچھ سیکھنا ہے، 3 ماہ پہلے کی دنیا الگ تھی، آج کی دنیا الگ ہے اور 3 ماہ بعد دنیا مکمل طور پر بدل جائے گی اب ڈیجیٹلائزیشن کا دور ہے۔ میاں عتیق شیخ نے کہا کہ بے روزگار افراد کے لیے کون قانون سازی کرے گا، ٹیکنالوجی کی دوڑ میں 80 کی دہائی کا موقع ہم گنوا چکے ہیں اور اب دنیا پھر وہیں آکر کھڑی ہوگئی ہے۔سینیٹ اجلاس میں تجاویز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان لیپ ٹاپ اور موبائل فون سے ڈیوٹی ہٹائیں، بینکوں کو خصوصی طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ نوجوانوں کے لیے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ کی خریداری کے لیے آسان اقساط پر قرضے دینے کی ہدایت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے چھوٹے دکانداروں کو آگے بڑھانا ہے تو کابینہ ان کے لیے بھی کچھ سوچے کیونکہ آج ہمارا چھوٹا دکاندار بہت پریشان ہے کہ وہ کیسے کاروبار چلائے۔میاں عتیق شیخ نے کہا کہ مجھے دکھ ہے کہ میرا ڈیجیٹل پاکستان کہاں ہے؟ اگر اس عالمی وبا میں وہ ڈیجیٹل پاکستان نظر نہیں آرہا ہے تو پھر کیا ہوگا۔
علاوہ ازیں سینیٹ میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے ایک بستی کی مثال پیش کی ہے جسے اللہ نے نعمتوں سے نوازا تھا تاہم انہوں نے ناشکری کی جس کے بعد ان پر عذاب آیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’رب کریم کی جانب سے ہم پر عذاب آیا ہے اور ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ عذاب ہم پر کیوں آیا، کائنات کا نظام عدل اور انصاف پر قائم ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کے بعد یہ وبا 16ویں مرتبہ آئی ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’اس وبا نے خوشحال علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا، مسلمان ہونے کے ناطے ساری انسانیت کے حوالے سے ہمیں نجات کا راستہ تلاش کرنا ہے اور دنیا کو یہ راستہ پیش کرنا ہے‘۔سراج الحق کا کہنا تھا کہ ’اللہ کی سنت ہے کہ جب عذاب آتا ہے تو اس میں برے لوگوں کے ساتھ وہ مسلمان جو برائی کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے وہ بھی اس کا شکار ہوتے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وبا کی وجہ سے کچھ کمزوریاں سامنے آئی ہیں، پہلی بار ہمیں معلوم ہوا کہ 22 کروڑ عوام کے لیے صرف 13 سو وینٹی لیٹرز ہیں اور اس وبا کے دوران بھی ہماری قیادت ایک پیج پر نہیں آسکی‘۔انہوں نے کہا کہ ’کہنے کو تو سب نے ماسک لگائے ہیں مگر اپنی زبان کو لگام نہیں دے سکے‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’ایک اور چیز جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا بجٹ سوشل سیکٹر پر خرچ نہیں ہوتا بلکہ انتظامی معاملات پر خرچ ہوتا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ غریب عوام کے پاس اتنا پیسہ کہاں کہ وہ 9 ہزار روپے کا کورونا کا ٹیسٹ کرائیں، ہمیں اس ٹیسٹ کو مفت کرنا چاہیے۔
ایوان بالا (سینیٹ) نے ‘چین کے خلاف بے بنیاد پروپیگینڈا’ مسترد کرنے کی قرار داد منظور کرلی۔اجلاس میں قائد حزب اختلاف راجا ظفر الحق کی جانب سے قرار داد پیش کی گئی۔جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے ‘چین کے خلاف (اس) بے بنیاد پروپیگینڈے’ کو مسترد کردیا کہ مبینہ طور پر وائرس کے بنانے میں اس کا کردار ہے۔اس موقع پر انہوں نے چین کی جانب سے پاکستان کی مدد اور ذاتی تحفظ کے سامان سمیت طبی امداد فراہم کرنے پر شکریہ بھی ادا کیا۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) کے سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے خلاف سازشیں طویل عرصے سے جاری ہیں۔انہوں نے دعوی کیا کہ حکومت ’خوش نہیں ہے کہ لوگوں کو بااختیار بنایا جارہا ہے‘ کیونکہ 18 ویں ترمیم نے صوبوں کو مساوی حقوق دیے۔سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بلوچستان کو ایک بھی وینٹی لیٹر فراہم نہیں کیا ہے۔انہوں نے این ڈی ایم اے کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے غیر اطمینان بخش قرار دیا، انہوں نے کہا کہ صوبے میں ٹیسٹ کٹس کی کمی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں صرف ایک لیبارٹری ہے، لوگوں کو اپنے ٹیسٹ کے نتائج حاصل کرنے کے لئے 15 دن انتظار کرنا پڑے گا‘۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر محسن عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان میں وائرس کے کم واقعات کی وجہ حکومت کے اقدامات ہیں اور اس کی کوششوں کو سراہنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ’یہاں تک کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی وبائی امراض کے مقابلہ میں بے بس ہیں جبکہ پاکستان اپنے محدود وسائل کے ساتھ اس سے نمٹ رہا ہے اور میرا ماننا ہے کہ حکومت کی کوششوں کی تعریف نہ کرنا نا انصافی ہے‘۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ سینیٹ کا خصوصی اجلاس تجاویز پیش کرنے کے بجائے حکومت کی ’تذلیل‘ کرنے کے لیے طلب کیا گیا۔حکومت کی لاپرواہی کی وجہ سے ایل آر ایچ کے 100 سے زائد ڈاکٹرز وائرس سے متاثر ہوئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد نے کہا ہے کہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال میں 100 سے زیادہ ڈاکٹروں کو ’حکومت کی غفلت‘ کی وجہ سے کورونا وائرس ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ فرنٹ لائن ورکرز کو حفاظتی لباس جیسے ’ہتھیاروں‘ کی ضرورت ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’میں نے ڈاکٹرز کو ایک ہی حفاظتی لباس پہننے یا دوبارہ استعمال کرنے کی خبریں سنی ہیں، یہ ایک ممکنہ تباہی ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے، کیا یہ حکومت کی تیاری ہے؟‘۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ترجیحی بنیادوں پر فرنٹ لائن ورکرز کی حفاظت کرے اور انہیں قومی ہیرو سمجھے۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمٰن ملک نے سینیٹ سے بلا معاوضہ غریب عوام کے کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک قرارداد پاس کرنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ’غریب عوام کو ٹیسٹ کروانے کا اولین حق حاصل ہے‘۔رحمٰن ملک نے ایک قرارداد بھی طلب کی جس میں کہا گیا کہ پاکستان بین الاقوامی قرض دہندگان سے مزید قرضے نہیں لے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاؤن کی تعریف کے بارے میں حکومت کو واضح ہونا چاہیے۔ملک میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر جو حساب کتاب کیا گیا ہے اس کے مطابق پاکستان میں کم از کم 8 لاکھ کیسز ہیں۔
سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے فیصل جاوید نے کہا کہ اجلاس بلانے کا مقصد ناکام ہوتا دکھائی رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے مطالبے پر ایوان کا اجلاس طلب کیا گیا تھا اور سارے پاکستانی ابھی تک منتظر ہیں کہ اس اجلاس میں کورونا وائرس پر بھی بحث ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ دیگر تمام امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی کچھ اراکین پارلیمنٹ نے بھی کورونا پر بھی بات کی لیکن کوئی ٹھوس تجاویز سامنے نہیں آئیں، لاک ڈاؤن کے فوائد و نقصانات سے متعلق بحث نہیں ہوئی، اجلاس بلانے کا مقصد ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ارطغرل ڈرامے کی بات ہوئی، ہمارے ملک میں پہلے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر جو ڈرامے یا پروگرام آتے تھے وہ کچھ سکھا کر جاتے تھے کہ چوری، رشوت اور جھوٹ بولنا بری چیز ہے اس سے بچوں کی تربیت ہوتی تھی۔فیصل جاوید نے کہا کہ بعد میں ہم اس مواد سے بہت دور چلے گئے بھارت کے ڈرامے اور گانے ہماری ٹیلی ویژنز اسکرینز کی زینت بنے تب کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا، اب جب وزیراعظم عمران خان نے تجویز دی کہ اسلامی تاریخ پر کئی ممالک نے بہت زبردست کام کیا ہے اس پر اعتراض کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پاکستان نے بھی کام کیا ہے اور اس پر مزید کام کیا جائے گا جن ممالک نے اس پر کام کیا ہے وہ دیکھنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنی تاریخ سے متعلق جان سکیں۔فیصل جاوید نے کہا کہ وفاقی حکومت نے پہلے دن سے تفصیلی تکنیکی بریفنگس کا اہتمام کیا اور وزرا نے آکر قوم کو تکنیکی اقدامات سے متعلق بریفنگ دی۔ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس ملک میں رواں سال سے پہلے موجود تھا، کورونا نیا نہیں ہے ملک میں کرپشن کا کورونا پچھلے کئی سالوں سے موجود تھا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے عید کی شاپنگ کے لیے بازاروں میں رش سے متعلق کہا کہ لوگوں کو خود بھی احتیاط رکھنا چاہیے کہ جہاں حکومت احساس کرتے ہوئے اقدامات کررہی ہے تو عوام کو بھی لاپروائی نہیں کرنی چاہیے، لوگ اس وقت دوسروں کے بارے میں بھی سوچیں۔
خیال رہے کہ اپوزیشن کی درخواست پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوان بالا کا پہلا اجلاس 12 مئی کی صبح طلب کیا گیا تھا۔
سینیٹ اجلاس سے متعلق ضابطے کے تحت اجلاس سے قبل تمام سینیٹرز کورونا وائرس کا ٹیسٹ لازمی قرار دیا گیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button