رانا شمیم و دیگر کیخلاف فرد جرم کی کارروائی ملتوی
گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم، جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن، سینئر صحافیوں انصار عباسی اور عامر غوری کیخلاف فرد جرم کی کارروائی ملتوی کر دی گئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، گلگت بلتستان کے چیف جج رانا شمیم اور ان کے وکیل لطیف آفریدی کے علاوہ صحافی انصار عباسی اور عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے۔ججز کی جانب سے انصار عباسی سے استفسار کیا گیا کہ آپ نے درخواست دائر کی تھی جس میں کہا تھا کہ عدالت نے کلیرکل غلطی کی، انصار عباسی نے عدالتی حکمنامے میں کی گئی غلطی کی نشاندھی بھی کی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اس ملک میں کسی کو سبجوڈس قوانین کے متعلق معلوم ہی نہیں یا پھر جاننا نہیں چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی بینچ سے متعلق بیانیہ تھا جس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور میں شامل تھا۔
رائے دی جا رہی ہے کہ ججز دباؤ میں فیصلے کرتے ہیں، اس قسم کی خبروں کی وجہ سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا بدقسمتی سے ہمیں بار بار برطانیہ کی ہی مثال دینی پڑتی ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس بینچ سے زیادہ کوئی آزادی اظہارِ رائے کا حامی نہیں، ہم آپ کی دیانتداری پر سوال نہیں کر رہے ہم چاہتے ہیں آپ کو احساس ہو کہ آپ کی خبر کا کیا اثر ہوا۔
خیبرپختونخوا بلدیاتی انتخابات کے نتائج ویب سائٹ پر جاری
چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کے لیے سائلین کے حقوق سب سے زیادہ اہم ہیں، بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن کے نام خبر میں لکھے ہیں دو دن بعد ان کے کیسز لگے تھے، عدالت نے پوری سماعت میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ نے کیا غلطی کی ہے،
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نمائندے ناصر زیدی نے عدالت سے استدعا کی کہ فرد جرم نہ عائد کی جائے۔
انصار عباسی نے کہا کہ افتخار چوہدری والے معاملے میں جتنے بیان حلفی آئے تھے وہ سارے چھپے تھے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ معاملہ کیا تھا یہ بھی بتائیں، انصار عباسی نے کہا کہ ظفرعباس صاحب(ڈان کے ایڈیٹر) نے لکھا کہ مجھے بیان حلفی ملتا تو میں بھی وہی کرتا جو انصار نے کیا۔
اس موقع پر عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ رانا شمیم کی حد تک یہ مجرمانہ توہین عدالت کا کیس بنتا ہے، صحافیوں کے خلاف نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کے عدالت پر اعتماد کو ختم کرنے کے لیے سیاسی بیانیہ بنایا جاتا ہے۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ پہلے دن سے مؤقف ہے کہ میڈیا کا کردار ثانوی ہے، میں سیاسی نہیں بلکہ مکمل طور پر قانونی بات کر رہا ہوں
۔