پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی ترقی شیخ چلی کا خواب کیوں ہے ؟

حکومت کی جانب سے کرپٹو کرنسی کی حوالے سے بلندوبانگ دعوؤں کا سلسلہ جاری ہےتاہم معاشی ماہرین کاکہنا ہے کہ کرپٹو کرنسی بارے حکومتی دعوے اور بیانات اصل میں شیخ چلی کے خواب ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ اس وقت ملک میں نہ تو کرپٹو کرنسی بارے کوئی قوانین موجود ہیں اور نہ ہی حکام کے پاس کرپٹو کرنسی کی ترقی بارے کوئی عملی ڈھانچہ پایا جاتا ہے اس لئےمستقبل قریب میں کرپٹو کرنسی کے شعبے میں پاکستان کا آگے بڑھنا ناممکن دکھائی دیتا ہے، دوسری جانب وزیر اعظم کے نو منتخب معاون خصوصی اور پاکستان کرپٹو کونسل کے چیف ایگزیکٹو آفیسربلال ثاقب کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کرپٹو کرنسی میں بھارت کی نسبت زیادہ تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ ٹیکنالوجی کے عالمی لیڈرز پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور بہت سی بڑی کمپنیاں پاکستانآنے کے خواب دیکھ رہی ہیں۔
تاہم کرنسی کے شعبے سے منسلک اور ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا بلال ثاقب کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا حجم کافی زیادہ ہے تو یہ حقیقت سے زیادہ دور نہیں ہوگا۔ تاہم پاکستان کا اس شعبے میں انڈیا سے آگے نکلنا ایک خواب ضرور ہو سکتا ہے تاہم حقائق اس دعوے کی تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ ایک اندازے کے مطابق 2 سے ڈھائی کروڑ افراد غیر قانونی طریقوں سے اس شعبے میں سرگرم ہیں، اگر اس بنیاد پر کہا جائے کہ ہم اس میدان میں آگے ہیں، تو یہ درحقیقت ایک افسوسناک برتری ہے، کیونکہ یہاں اس عمل کو روکنے یا منظم کرنے والا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ اگر کوئی یہ کہے کہ ہم کرپٹو کرنسی کے حوالے سے بھارت سے اس لیے آگے نکل گئے ہیں کیونکہ ہم نے بغیر کسی واضح قانون سازی یا ریگولیٹری ادارے کےکرپٹو کونسل قائم کردی ہے، اور ایک سی ای او بھی مقرر کردیا ہے، تو شاید یہ ایک طرح کی پیشرفت سمجھی جا سکتی ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس شعبے میں بھی کوئی مؤثر عملی ڈھانچہ نظر نہیں آتا۔ظفر پراچہ نے اس حوالے سے نشاندہی کی کہ کسی بھی ادارے کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے قانون سازی ہوتی ہے، بل پارلیمان سے پاس کیا جاتا ہے، اور پھر ادارے کے لیے تقرریاں عمل میں آتی ہیں، مگر یہاں ترتیب بالکل الٹ نظر آتی ہے۔ ’پہلے تقرریاں ہوئیں، پھر ادارے کی بات کی گئی، اور قانون سازی ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے۔‘انہوں نے کہاکہ ایکسچینج کمپنیاں جو فارن ایکسچینج کے حوالے سے بنیادی کردار ادا کرتی ہیں، انہیں اس تمام عمل میں نظرانداز کیا گیا۔ حالانکہ کرپٹو کا معاملہ بھی اسی دائرہ کار میں آتا ہے، اور انہی کمپنیوں کو اس شعبے میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ظفر پراچہ کے مطابق یہ بات حقیقت ہے کہ کئی کمپنیاں پاکستان میں دلچسپی رکھتی ہیں، کچھ آ چکی ہیں، اور بظاہر یہی کمپنیاں کرپٹو کونسل کی تشکیل میں تیزی کی وجہ بن رہی ہیں۔
ظفر پراچہ نے مزید کہاکہ یہ کمپنیاں یہاں اس لیے آنا چاہتی ہیں کیونکہ پاکستان میں غیر قانونی کرپٹو مارکیٹ پہلے سے ہی وسیع ہے، ان کی خواہش ہے کہ اس مارکیٹ کو قانونی حیثیت دی جائے تاکہ انہیں بھی فائدہ پہنچے۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کرپٹو کونسل کے قیام اور قانون سازی سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا؟ کیا اس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا؟ کیا ٹیکس ریونیو بڑھے گا؟ یا صرف ہم انہیں قانونی پناہ گاہ فراہم کررہے ہیں؟ایک سوال کے جواب میں ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ کرپٹو کمپنیاں پاکستان میں مواقع دیکھ رہی ہیں، انہیں لگتا ہے کہ یہاں قوانین نرم ہوں گے اور کاروبار آسانی سے چلے گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ کم از کم بنیادی سطح کی کوئی ریگولیشن قائم ہو جائے تاکہ وہ یہاں دفاتر کھول سکیں اور منافع حاصل کر سکیں۔
عمران خان کی رہائی کی تحریک دوبارہ ناکامی کا شکار کیوں ہوگئی ؟
معاشی ماہرین کے مطابق حکومت نے کرپٹو کرنسی بارے ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کا جو قدم اٹھایا ہے اس سے کم از کم ٹرانزیکشنز کو چینلائز کیا جا سکے گا، اور فراڈ سے بچنے کا ایک میکانزم بن جائے گا، لیکن اب حکومت کو چاہیے جو کرپٹو ایکسچینجز ہیں جیسا کہ بائنانس، بٹ کوائن اور دیگر کرنسیاں، ان سب کو سب سے پہلے اپنے اس فریم ورک کے اندر لے کر آئے۔اس سے کرپٹو پالیسی کے بعد جب ملک میں انویسٹرز آئیں گے، جس سے ہائی ٹیک جابز پیدا ہوں گی پرائیویٹ سیکٹرز آگے بڑھے گا، ٹریڈرز، یوزرز اور ایکسچینجرز پہلے سے ہی موجود ہیں، صرف لیگل فریم ورک کی ضرورت ہے، اس کے بعد اس انڈسٹری میں تہلکہ نظر آئے گا۔‘