زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس

تحریر : نصرت جاوید

بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت

عمر کے جس حصے میں داخل ہوچکا ہوں وہاں آنکھوں اور دانت کے مسائل وقتاً فوقتاً بہت پریشان کردیتے ہیں۔ خوش نصیبی سے مجھے ان دو معاملات کے حوالے سے ماہر مگر مہربان ڈاکٹر مل گئے جو میری معاشی ’اوقات‘ کا خصوصی خیال رکھتے ہیں۔ دانتوں کے چند امراض مگر ایسے ہیں جن کا علاج متوسط طبقے کے بس کی بات نہیں۔ 2018ء کے انتخاب سے چند ماہ قبل میرے دائیں جبڑے کے اوپری حصے کی داڑھیں تیزی سے ناکارہ ہونا شروع ہوگئیں۔ بالآخر انھیں نکلوانا پڑا۔ اس کے بعد کھانا چبانے کا سارا بوجھ بائیں جبڑے کی جانب منتقل ہوگیا تو کبھی کبھار دردمحسوس ہونا شروع ہوگیا ۔ دریں اثناء انکل گوگل اور یوٹیوب کی بدولت دریافت ہوا کہ Implantنام کی ایک ترکیب عرصہ ہوا ایجاد ہوچکی ہے۔ یہ آپ کے جبڑے میں نجانے کون سا مواد ڈالتے ہیںجو بالآخر مضبوط ہڈی میں بدل جاتا ہے۔ دو یا تین مہینے بعد جب ہڈی مضبوط ہوجائے تو مشینوں کے ذریعے تیار شدہ داڑھوں کو ہڈی میں سوراخ کرکے اس طرح لگادیا جاتا ہے کہ وہ فطری دانتوں کی طرح کھانا چباسکیں۔
جس ترکیب سے متعارف ہوا وہ مجھے بہت بھائی۔ دل میں لیکن یہ خیال آتا رہا کہ یہ بہت مہنگا سودا ہوگا۔ کافی دن سوچنے کے بعد میں نے ایک مہربان ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔ انھوں نے اس حوالے سے جورقم بتائی مجھے معقول اور قابل برداشت لگی۔ یہ جان کر مزید اطمینان ہوا کہ جبڑے میں ہڈی بنانے والا سفوف ڈلوانے کے بعد آپ کو دو سے تین ماہ کا وقفہ درکار ہے۔ یوں یکمشت رقم ادا کرنے سے بھی بچت ہوجائے گی۔ میری بیوی اور بیٹیوں نے بھی مجھے اس عمل سے گزرنے کو ضدی انداز اختیار کرتے ہوئے مائل کردیا۔ 2018ء کے انتخاب سے چند ہفتے قبل میں نے بالآخر جبڑے میں ہڈی بنانے والا سفوف ڈلوالیا اور دو سے ڈھائی ماہ تک کا وقفہ مل گیا۔
مجھے خبر نہیں کو جو سفوف میرے جبڑے میں ڈالا گیا وہ ہڈی میں تبدیل ہوا یا نہیں۔ یہ جاننے سے قبل ہی مگر عمران خان صاحب کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی مجھے اس ٹی وی نے ’معاشی بوجھ‘ قرار دے کر نوکری سے فارغ کردیا جس کے لیے میں ایک پرائم ٹائم شو کرتاتھا۔ آمدنی محدود ہوگئی تو خود کو قائل کیا کہ مشینی داڑھیں نصب کروانا ’امیروں کے چونچلے‘ ہیں۔ اپنی اوقات پہچانتے ہوئے مجھے بڑھاپے کے مسائل کے ساتھ رہنے کی عادت اپنانا ہوگی۔ تقریباً چار برس کے بعد مگر ایک اور ٹی وی سے نوکری کی آفر آگئی۔ عمران حکومت بھی تحریک اعتماد کے ذریعے اس دوران گھر جاچکی تھی۔ میں نے ارادہ باندھا کہ پہلی تنخواہ ملتے ہی مشینی داڑھیں نصب کروالوں گا۔ اس ارادے کے ساتھ شرم کے مارے ایک اور ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو انھوں نے ایکسرے دکھاکر میرے پائوں تلے سے زمین نکال دی۔ جو سفوف ڈالا تھا ہڈی میں بدلا تو داڑھیں نصب نہ کروانے کی وجہ سے ناکارہ ہوگیا۔ اب مجھے سارے عمل کو ابتدا سے شروع کرنا ہوگا۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا فیصلہ کروں تو جو نوکری ملی تھی وہاں کے ماحول سے دلبرداشتہ ہوکر مستعفی ہوگیا۔
جولائی 2023ء سے مگر ایک اور ٹی وی کی نوکری ابھی تک برقرار ہے۔ بایاں جبڑا بوجھ سے لڑکھڑاتا محسوس ہوا تو میں دوبارہ اسی عمل کو تیار ہوگیا جسے امیروں کا چونچلا ٹھہرا کر رد کرچکا تھا۔ سارے عمل سے گزرنے کے لیے تین سے چار ماہ لگے۔ اس دوران کئی ایسے ٹیسٹ بھی کروانا پڑے جو عمر کے اعتبار سے اچھی صحت کی کہانی بیان کرتے رہے۔ دونئی داڑھیں لگنے کے تقریباً 6ماہ بعد ان میں ایک ہلنا شروع ہوگئی اور بعدازاں گرگئی۔ اسے منہ سے نکال کر میں نے خود کو برابھلا کہا اور فیصلہ کرلیا کہ اب ’چونچلا‘ کسی بھی حوالے سے جائز نہیں۔
چاند رات سے ایک دن قبل مگر میرے بائیں جبڑے میں شدید درد ہونا شروع ہوگیا۔ عید کا دن منہ بسورتے اور پین کلر کھاکے نیند میں گزارا۔ عید کی تعطیلات ختم ہونے کے فوری بعد ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑا۔ یہ بھی نہایت شفیق ڈاکٹر ہیں۔ میرے درد کا علاج ڈھونڈ لیا ہے۔ جو داڑھ گری تھی اسے لگانے کو بھی اصرار کررہے ہیں کیونکہ ان کے مطابق میرے جبڑے میں موجود ہڈی اپنی جگہ قائم اور مضبوط ہے۔ جو داڑھ گری ہے اس کے پیچ اگرچہ بدلنا ہوں گے۔
جس مہربان ڈاکٹر کے ہاتھ خود کو سپرد کیا ہے وہ فارغ ہوں تو مجھ سے گپ شپ لگانا پسند کرتے ہیں۔ ان کی زبانی مگر ایک ایسی اطلاع ملی جس نے میرے چودہ طبق روشن کردئے۔ سمجھ یہ آئی کہ منافع خور فقط پاکستان جیسے ملکوں ہی میں سفاک نہیں ہوتے۔ وہ جنھیں ہم مہذب وترقی یافتہ اور ایماندار ملک تصور کرتے ہیں وہ بھی منافع خوری کے لیے دونمبری سے پرہیز نہیں کرتے۔ دانتوں کے علاج میں غیر فطری دانتوں یا داڑھوں وغیرہ کی تیاری اور انھیں نصب کرنے کے نظام کے حوالے سے یورپ کے دو ملک نہایت قابل اعتبار اور مستند تصور ہوتے ہیں۔ جنوبی کوریا بھی اس ضمن میں کافی ترقی یافتہ جانا جاتا ہے۔ میں جان بوجھ کر ان یورپی ممالک کے نام نہیں لکھ رہا جو مذکورہ بالا تناظر میں سب سے کامیاب ومستند شمار ہوتے ہیں۔
سستی اجرت کی خاطر مگریہ یورپی ممالک بھی اپنے مشہور برانڈوں کی اشیاء ہمارے یار چین میں بنائی فیکٹریوں میں تیار کرواتے ہیں۔ مہربان ڈاکٹر نے یہ کہہ کر مجھے چونکا دیا کہ چین کی فیکٹریوں میں اپنے برانڈ کی اشیاء تیار کرواتے ہوئے وہ پاکستان جیسے ملکوں میں برآمد کے لیے نسبتاً کم کوالٹی کا سامان تیار کرواتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ان کے دنیا بھر میں مشہور ہوئے برانڈ کے حتمی معیار کے مطابق دانتوں کے امراض سے متعلق سامان افریقہ، ایشیاء ا ور لاطینی امریکا کے غریب تصور ہوتے ممالک میں جائے تو اس کی قیمت جان کر ممکنہ خریدار گھبراجائیں گے۔ معیار پر سمجھوتہ کرتے ہوئے لہٰذا ان ممالک کے لیے سستے داموں والا سامان تیار کیا جاتا ہے۔ میری جوداڑھ گری تھی اس کے پیچ کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کچھ عرصہ قبل بیرون ملک گئے تھے اور اعلیٰ معیار کا سامان خرید لائے۔ ان میں داڑھ کو جبڑے میں نصب کرنے والے پیچ بھی شامل ہیں۔ میری داڑھ لہٰذا دوبارہ آسانی سے نصب ہوجائے گی۔

ساڈا دل لوہے دا تے نئیں !

جن ڈاکٹر صاحب سے میری گفتگو ہوئی وہ جھوٹ بولنے کے عادی نہیں۔ شریف النفس ،بااصول اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے مالا مال ہیں۔ ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے لیکن میں نے ہفتے کے روز دانتوں کے چار مشہور معالجوں سے رابطہ کیا۔ ان میں سے دو افراد کے پاس میرے ساتھ گپ شپ لگانے کا وقت میسر تھا۔ مجھے جو بات مہربان ڈاکٹر نے بتائی تھی اس کی تصدیق ہوگئی۔ تصدیق مل جانے کے بعد سے میں خود سے شرمندہ محسوس کررہا ہوں۔ گزشتہ کئی دنوں سے مسلسل اصرار کررہا تھا کہ ٹرمپ کا امریکا یورپی ملکوں کے ساتھ زیادتی کررہا ہے۔ اس کے جرمنی اور فرانس جیسے ملک تہذیب اور اعلیٰ اصولوں کے حامل ہیں۔ ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں کا رویہ لیکن ان ممالک کے ساتھ نودولتیوں جیسا ہے۔ ذاتی تجربے نے بات سمجھائی ہے تو فقط اتنی کہ سرمایہ دار کا تعلق چاہے کسی بھی ملک سے ہو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس میں کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔

Back to top button