26ویں ترامیم کیخلاف دائردرخواستوں کو ڈائری نمبر الاٹ

سپریم کورٹ میں26 ویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر تمام درخواستوں کو ڈائری نمبر الاٹ کر دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف12 سے زائد درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں۔
رجسٹرار آفس کی جانب سے بلوچستان بار کونسل اوربلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کی طرف سےدائر کی گئی درخواستوں کو بھی نمبرلگا دیا گیا ہے۔
بلوچستان بار کونسل کی طرف سے دائر درخواست کو49 بٹا 24 اور بلوچستان ہائی کورٹ بار کی درخواست کو 50 بٹا 24 نمبر لگایا گیا ہے۔
آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں کو اب تک سماعت کیلئےمقرر نہیں کیا گیا ہے، درخواستوں کو سماعت کیلئےمقرر کرنے کا فیصلہ آئینی بینچ کمیٹی کرے گی۔
6دسمبر کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نےسینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے ایک روز قبل لکھے گئےخط کا جواب دیتے ہوئے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دینے کی مخالفت کی تھی۔
اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں پرسماعت فل کورٹ کے ذریعےکرنےکے حوالےسے بھی گفتگو ہوئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نےاپنے خط میں 26ویں آئینی ترمیم کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا ذکر کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نےتجویز کی مخالفت کرتےہوئے کہا کہ آئینی مقدمات کی سماعت کےحوالے سےفیصلے آئینی کمیٹی کرےگی اور یہ اختیار جوڈیشل کمیشن کے پاس نہیں ہے، ذرائع کے مطابق چیف جسٹس کی رائے کو اکثریتی ممبران کی حمایت حاصل رہی۔
5دسمبر کو سپریم کورٹ کے سینئرجج جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کا اگلے روز ہونے والا اجلاس مؤخر کرنے کیلئےچیف جسٹس کو خط لکھا تھا جس میں مشورہ دیا گیاتھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کردیا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نےچیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ26 ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی گئی تھی جبکہ26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف 2 درجن سے زائد درخواستیں زیر التوا ہیں۔
خط میں لکھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستیں منظور ہوسکتی ہیں اور مسترد بھی، درخواستیں منظور ہوئیں توجوڈیشل کمیشن کےفیصلوں کی وقعت ختم ہو جائے گی، ایسی صورتحال ادارےاور ممبران کیلئےشرمندگی کا باعث بنے گی۔
خط میں مشورہ دیا گیا کہ 26 ترمیم کیخلاف درخواستوں کے فیصلے تک اجلاس مؤخر کردیا جائےاورچیف جسٹس 26 آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نےمشورہ دیا کہ چیف جسٹس رجسٹرار سپریم کورٹ کو درخواستیں سماعت کیلئےلگانے کا حکم دیں۔
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی فہمیدہ مرزا، محسن داوڑ اور مصطفیٰ نواز کھوکھر نے 8 نومبر کو مشترکہ طور پر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد خان بچھر نے 5 نومبر کو اور جماعت اسلامی پاکستان نے 4 نومبر کو درخواست دائر کی تھی اور سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔
اختر مینگل، فہمیدہ مرزا، محسن داوڑ اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کی مشترکہ درخواست 26ویں آئینی ترمیم کو منظور کروانے کے طریقہ کار اور ترمیم میں عدالیہ کی آزادی کو سلب کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئےکالعدم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
درخواست میں وفاق، جوڈیشل کمیشن، خصوصی پارلیمنٹری کمیٹی کو فریق بنایا گیا، چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اور الیکشن کمیشن کے افسران کو بھی درخواست میں فریق بنایا گیا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ماضی میں عدلیہ کے ذریعے ایکزیکٹیو اور قانون سازی کے اختیارات میں مداخلت ہوئی تھی، 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلمینٹ نے عدلیہ کےاختیارات میں مداخلت کی، اس ترمیم کو فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے۔